1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حملے کے بعد مالدیپ کا عجائب گھر کھول دیا گیا

15 فروری 2012

گزشتہ ہفتے شدت پسند ہجوم کے حملے کے بعد مالدیپ کا قومی عجائب گھر منگل کے روز نمائش کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ تاہم اب یہ عجائب گھر اپنے بعض بہت ہی قیمتی اور تاریخی نوادارت سے محروم ہو چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/143c3

مالدیپ کے نیشنل میوزیم پر شدت پسند ہجوم کے حملے میں قریب 35 نوادرات کو تباہ کر دیا گیا۔ ان میں سے زیادہ تر بدھا اور ہندو دیوتاؤں کے مجسمے تھے۔ میوزیم کے ڈائریکٹر علی وحید کے مطابق ان میں سے بعض چھٹی صدی عیسوی کی نوادرات تھیں۔

وحید کے مطابق عجائب گھر میں 12ویں صدی عیسوی سے قبل کی 99 فیصد نوادرات توڑ پھوڑ کا شکار ہو گئی ہیں۔ اس علاقے میں اسلام کی آمد سے قبل اس وقت زیادہ تر ہندو اور بدھ مت کے پیروکار آباد تھے۔ علی وحید کے مطابق: ’’ ان میں سے بعض نوادرات کے ٹکڑوں کو جو کہ سینڈ اسٹون، کورل یا لائم اسٹون سے تیار کیے گئے تھے، جوڑا جا سکتا ہے، لیکن ان میں سے زیادہ تر اس قابل بھی نہیں ہیں۔‘‘

مالدیپ میں جاری سیاسی بحران کے دوران گزشتہ ہفتے مبینہ طور پر مسلم شدت پسندوں کے ہجوم نے عجائب گھر پر حملہ کر دیا تھا۔ سات ہفتوں تک جاری رہنے والے احتجاجی مظاہروں کے بعد بالآخر صدر محمد نشید نے اپنا عہدہ چھوڑ دیا تھا۔ بعد ازاں ان کا کہنا تھا کہ ان سے بندوق کی نوک پر زبردستی استعفیٰ لیا گیا۔

احتجاجی مظاہروں کے بعد مالدیپ کے صدر محمد نشید نے اپنا عہدہ چھوڑ دیا تھا
احتجاجی مظاہروں کے بعد مالدیپ کے صدر محمد نشید نے اپنا عہدہ چھوڑ دیا تھاتصویر: picture-alliance/dpa

مالدیپ سیاحوں کے لیے ایک پرکشش مقام کی حیثیت رکھتا ہے تاہم عجائب گھر پر حملے کے واقعے کو افسوسناک قرار دیا جا رہا ہے۔ مالدیپ نیشنل میوزیم کے ڈائریکٹر علی وحید کے مطابق: ’’ ہم نہایت افسردہ ہیں۔ تباہ ہونے والے نوادرات ملکی آثار قدیمہ کی اہم نشانی تھے۔ اب ہمارے پاس قبل از اسلام کی تاریخ کے بارے میں دکھانے کے لیے کچھ بھی نہیں بچا۔‘‘

مالدیپ کے قومی عجائب گھر کی زینت سمجھے جانے والے یہ قدیم نوادارت اس میوزیم کی 1952ء میں تعمیر کے بعد سے یہیں نمائش کے لیے موجود تھے۔ گزشتہ برس ایک ہجوم نے پاکستان کی طرف سے جنوب مشرقی ممالک ’سارک‘ سربراہی کانفرنس کے موقع پر مالدیپ کو پیش کیے جانے والے یادگاری نشان کو اس لیے تباہ کر دیا تھا کہ اس پر بدھا کا نقش موجود تھا۔

رپورٹ: افسر اعوان

ادارت: امتیاز احمد