حوثی حملوں سے سعودی عرب کی دفاعی کمزوریاں اجاگر
31 مارچ 2022سعودی عرب کے ایک تیل کارخانے پر ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کی جانب سے جمعے کے روز کیے گئے حملے کے بعد سعودی قیادت والی بین الاقوامی فورسز نے یمن کے دارالحکومت صنعا کے قریب حوثیوں کے ٹھکانوں کو اتوار کے روز نشانہ بنایا۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس حملے میں پانچ بچوں سمیت کم از کم آٹھ شہری ہلاک ہوگئے۔
دوسری طرف جدہ میں فارمولا 1 ریس ٹریک کے قریب واقع ایک جلتے ہوئے تیل کارخانے سے اٹھنے والے سیاہ دھوئیں کے بادلوں کی تصویریں اس بات کی یاد دہانی کرارہی ہیں کہ 35ملین آبادی والا سعودی عرب حوثیوں کے حملوں کے خطرات سے کس قدر دوچار ہے۔
ہولناک منظر
جرمنی میں واقع 'سینٹر فار اپلائیڈ ریسرچ' سے وابستہ ماہر سبسٹیان سنز نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ حملے کا وقت کسی اتفاق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ انہوں نے کہا،"اس طرح کے حملے سعودی عرب کے لیے ایک ہولناک منظر ہیں۔ ان حملوں نے دنیا کو یہ باور کرادیا ہے کہ حوثی سعودی عرب میں کسی بھی جگہ کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔"
سعودی عرب اور حوثیو ں کے درمیان تصادم کا سلسلہ سن 2015سے جاری ہے جب سعودی قیادت والی اتحادی فوج نے یمن میں جاری جنگ میں یہ کہتے ہوئے مداخلت کی تھی کہ حوثیوں کو سعودی عرب کے علاقائی حریف ایران سے مدد مل رہی ہے۔ اس کے بعد سے ہی حوثی سعودی عرب کے اہم اہداف مثلاً تیل کے کارخانوں اور ہوائی اڈوں کو مسلسل نشانہ بنارہے ہیں۔
حالیہ ہفتوں میں حوثیوں کے حملوں میں قابل ذکر تیزی آئی ہے تاہم یہ بات حیران کن ہے کہ فوجی لحاظ سے اتنا طاقتور ملک خاطر خواہ فوجی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیوں نہیں کررہا ہے۔
امریکہ کے ساتھ رشتے
ایک وجہ سعودی عرب کے سب سے بڑے حلیف اور ہتھیاروں کے سپلائر امریکہ کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی ہے۔ امریکہ نے اکتوبر 2018میں استنبول میں سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد مدد سے ہاتھ کھینچ لیے تھے۔
اس کے بعد پیٹریاٹ اینٹی میزائل سسٹم اور ٹرمنل ہائی ایلٹی ٹیوڈ ایریا ڈیفنس (ٹی ایچ اے اے ڈی) سسٹم، جنہیں سن 2019میں سعودی عرب پر حوثیوں کے حملوں کے بعد نصب کیا گیا تھا، کی کارکردگی متاثر ہوگئی۔ اس کے علاوہ ہزاروں فوجیوں کو ریاض سے تقریباً 115 کلومیٹر دور واقع پرنس سلطان ہوائی اڈے سے ہٹا کردوسری جگہ تعینات کردیا گیا۔
اس کے بعد سعودی عرب میں میزائلوں کی قلت دیکھی گئی جس کی وجہ سے ملک کی دفاعی صلاحیت مزید کمزور ہوگئی۔
سنز کہتے ہیں کہ گوکہ ریاض نے چین، یونان اور یوکرین پر حملے سے قبل روس جیسے شراکت داروں کے ساتھ بھی دفاعی سسٹم میں تعاون میں دلچسپی کا اشارہ دیا تھا تاہم ان سب کے باوجود امریکہ اب بھی اس کا سب سے بڑا پارٹنر ہے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس سال جب حوثیوں کے حملوں میں شدت آگئی تو ریاض نے مارچ کے وسط میں امریکہ سے نئے پیٹریاٹ میزائل شکن نظام فوری طور پر فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔
دو سسٹمز کی ضرورت
سعودی عرب کی دفاعی صلاحیتوں کو مناسب انداز میں بہتر بنانے کے لیے پیٹریاٹ میزائل کے ساتھ ہی ایک دیگر دفاعی سسٹم کی بھی ضرورت ہے۔
واشنگٹن میں واقع تھنک ٹینک مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں دفاعی اور سکیورٹی پروگرام کے ڈائریکٹر بلال صاب نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،"سعودی دفاعی سسٹم اچھا کام کررہا ہے۔ مسئلہ خودکار فضائی نظام ہے، جسے کروز میزائل یا مسلح ڈرونز بھی کہا جاتا ہے۔"
انہوں نے بتایا کہ جمعے کے روز ارامکو کے تیل کارخانے کو اسی طرح کے کروز میزائل سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ "یہ انٹرسیپٹر کی کمی کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ رڈار کا مسئلہ ہے۔ جو رڈار ہیں وہ کم اونچائی پر حملہ کرنے والے ہتھیاروں کا پتہ نہیں لگاپاتے۔" انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اسرائیل کے آئرن ڈوم جیسے معاون دفاعی سسٹم کی ضرورت ہوگی۔
لیکن اس طرح کے مشوروں پر عمل درآمد کرنے کے اپنے سفارتی مضمرات ہیں۔
ریاض ایک عرصے سے اسرائیل کے ڈوم میزائل ڈیفنس سسٹم میں دلچسپی کا اظہار کرتا رہا ہے۔ دونو ں ملکوں میں گوکہ غیر رسمی بات چیت ہوتی رہی ہے لیکن ان میں اب تک باضابطہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ اس طرح کے سفارتی تعلقات کے بغیر سعودی عرب اسرائیلی ڈیفنس سسٹم نہیں خرید سکتا ہے۔
ویژن 2030 خطرے میں؟
سعودی عرب دنیا بھر کے سیاحوں اور سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے جدید کاری کے ایک فریم ورک پر کام کررہا ہے جسے ویژن 2030کا نام دیا گیا ہے۔ لیکن فوجی لحاظ سے کمزوری ولی عہد محمد بن سلمان کے اس پرعزم منصوبے کی راہ میں مشکلات پیدا کررہی ہیں۔
سنز نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،"حوثی حملوں نے ویژن 2030کے لیے خطرہ پیدا کردیا ہے۔صرف اس لحاظ سے نہیں کہ وہ ترقی کو روک سکتے ہیں بلکہ اس لحاظ سے بھی کہ انہوں نے ایک ایسا ماحول پیدا کردیا ہے جو غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے مناسب نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب کی جانب سے اعلانات اور دعووں کے باوجود کمزوریاں اور مسائل تو بہر حال موجود ہیں، جو ویژن 2030کو نافذ کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔
(جنیفرہالیئس، کرسٹن نیپ) ج ا/ ص ز