ایف آئی اے کا فیصلہ تنقید کی زد میں
12 مئی 2022اس فیصلے سے پی ایم ایل این کی حکومت کے خلاف تنقید کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ ایجنسی کے اس فیصلے سے پاکستان تحریک انصاف کو فائدہ ہوگا ،جس کا یہ الزام تھا کے شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کی حکومت اقتدار میں آئی ہی اسی لیے تھی کہ وہ اپنے خلاف کرپشن کے کیسز کو ختم کروا سکیں۔
ایف آئی اے کی دلیل
ایف آئی اے نے یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے، جب لاہور ہائی کورٹ کی ایک خصوصی عدالت کچھ ہی دنوں میں 16 ارب روپے کے منی لانڈرنگ کے مقدمے میں شہباز شریف اور حمزہ شریف کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کرنے والی ہے۔
اس حوالے سے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کی طرف سے جو بیان عدالت میں تفتیشی افسر کے ذریعے جمع کرایا گیا ہے، اس کے مطابق ایف آئی اے نے اپنے افسران کو عدالت میں پیش ہونے سے روک دیا ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ شہباز شریف ملک کے وزیراعظم اور حمزہ شریف پنجاب کے منتخب وزیر اعلی ہیں۔ تحریری جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ متعلقہ ادارے فرد جرم عائد کرنے یا مقدمے کی پیروی کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے اس لیے اس کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔
تنقید کا طوفان
ایف آئی اے کے اس فیصلے کو ملک میں کئی حلقوں کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور حکومت کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ملک میں احتساب کے عمل کی فاتحہ پڑھ لینی چاہیے کیونکہ پی ایم ایل این کی حکومت اب اپنے رہنماؤں کے خلاف درج ہونے والے کرپشن کے مقدمات سے جان چھڑائے گی۔ اس کے لیے وفاقی حکومت نیب کو غیر مؤثر کرے گی اور ایف آئی اے کو اپنے رہنماؤں کے خلاف تفتیش سے روکے گی۔
پی ٹی آئی کو سیاسی فائدہ
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ اس فیصلے کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان تحریک انصاف کو ہوگا، جس کا دعویٰ یہی تھا کہ شریف برادران اقتدار میں صرف اس لیے آنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنے اور پیپلزپارٹی سمیت ان کے ساتھ جو اتحادی ہیں ان کے خلاف درج شدہ کرپشن کے کیسز کو ختم کروا سکیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے کے فیصلے نے عمران خان اور پی ٹی آئی کے موقف کو درست ثابت کردیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پی ٹی آئی تو پہلے ہی یہ کہہ رہی تھی کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ اقتدار میں صرف اس لیے آنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے خلاف کرپشن کے کیسز، جو ماضی میں درج ہوئے، کا خاتمہ کرائیں اور اب ایف آئی اے کے اس فیصلے نے ان کی اس بات کو صحیح ثابت کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی ملک کے طول و عرض میں جلسے جلوس کر رہی ہے اور وہ یقینا اس فیصلے کو ہر جگہ اچھالیں گے، جس سے نون لیگ کو سیاسی نقصان ہوگا اور پی ٹی آئی کو سیاسی فائدہ۔‘‘
حبیب اکرم کے مطابق نہ صرف ایف آئی اے کو تفتیش سے روکا جائے گا بلکہ نیب کا ادارہ بھی غیر مؤثر ہو جائے گا، ''میرے خیال سے یہ فیصلہ سیاسی طور پر دانشمندانہ نہیں ہے اور اس سے نون لیگ کو سیاسی نقصان ہوگا اور عوام میں یہ تاثر مل جائے گا کہ سیاسی رہنما پاکستان میں اداروں کی مضبوطی نہیں چاہتے اور وہ نہیں چاہتے کہ ادارے غیر جانبدار رہیں۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلٰی پنجاب ان تمام قانونی مراحل سے گزرتے تاکہ عوام میں یہ تاثر جاتا کہ ملک میں ادارے بالکل غیر جانبدار ہیں اور وہ ہر اس شخص کے خلاف کارروائی کر سکتے ہیں جس پر کرپشن کا الزام ہو یا جو کرپشن میں ملوث ہو۔‘‘
ایف آئی اے اور حکومتی ادارے دباؤ میں ہیں
لاہور سے تعلق رکھنے والے ایف آئی اے کے ایک سابق سینیئر افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا ، ''اس وقت فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے عہدے دار اور وہ افسران جو شہباز شریف، حمزہ شریف اور شریف خاندان کی کرپشن کے حوالے سے تفتیش کر رہے تھے، وہ شدید دباؤ میں ہیں۔ ایف آئی اے کا ایک افسر رضوان، جو ان تمام کرپشن کیسز کی تحقیقات کر رہا تھا، اس کو دل کا دورہ پڑا اور وہ فوت ہو گیا۔ اس کی وجہ سے تمام افسران میں بے چینی ہے اور جو لوگ ان مقدمات کی تفتیش رہے تھے، نہ صرف ان کو ہٹایا گیا بلکہ ان کے ماتحت افسران کو بھی ہٹا دیا گیا۔ اس کے بعد مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کے پاکستان میں احتساب کا نظام مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔‘‘
اس فیصلے پر سوشل میڈیا پر بھی صارفین حکومت پر تنقید کر رہے ہیں۔ ایک ٹوئٹر صارف نے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے لکھا کے وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر اعلی پنجاب حمزہ شریف کو اپنے خلاف درج شدہ کرپشن کے مقدمات کا سامنا کرنا چاہیے۔‘‘
نوٹس لیا جائے، پی ٹی آئی کا مطالبہ
پی ٹی آئی کے رہنما اور سابق رکن اسمبلی محمد اقبال خان آفریدی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم تو پہلے کہہ رہے تھے کہ یہ مجرموں کا ٹولہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عدالتیں دوسرے مسائل کے لیے رات کو 12 بجے بھی کھلی ہیں: ''میرا خیال ہے یہ ایک سنگین معاملہ ہے۔ مجرموں کو چھوٹ دی گئی ہے اور یہ تاثر پیدا کیا گیا ہے کے اس ملک میں ایک عام شہری کے ساتھ ایک مختلف قانونی رویہ اختیار کیا جائے گا اور طاقتور مجرموں کے ساتھ رویے مختلف ہوں گے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ عدالتیں اور متعلقہ ادارے فوری طور پر پر ایف آئی اے کے اس فیصلے پر نوٹس لیں۔‘‘
ڈی ڈبلیو نے مسلم لیگ نون کے مختلف رہنماؤں کواس بارے میں ان کا موقف جاننے کے لیے بار بار پیغامات بھیجے اور ٹیلی فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن نہ ہی انہوں نے ٹیلی فون اٹینڈ کیا اور نہ ہی پیغامات کے جواب دیے۔