’حکومت گمشدہ افراد کی جلد بازیابی ممکن بنائے‘
10 جنوری 2017نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ان بلاگرز کی اچانک گمشدگی یہ خدشات بڑھا رہی ہے کہ ان کے اغوا میں حکومت ملوث ہو سکتی ہے۔ غائب ہونے والے افراد میں سلمان حیدر شامل ہیں جو کہ ایک شاعر ہیں اور تدریسی شعبے سے وابستہ ہیں۔ اس کے علاوہ بلاگرز وقاص گورایا، عاصم سعید اور احمد رضا نصیر بھی گمشدہ ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا کے ڈائریکٹر بريڈ ایڈمز کا کہنا ہے، ’’پاکستانی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ جلد از جلد ان گمشدہ افراد کا سراغ لگائے۔ ان افراد کے غائب ہونے نے حکومت پاکستان کو ایسی جگہ کھڑا کر دیا ہے جہاں اسے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا وہ اس مسئلے کا حل چاہتی ہے۔ بصورت ديگر حکومت کو اس مسئلے میں ملوث ہونے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘‘
سوشل میڈیا پر بھی سلمان حیدر اور دیگر بلاگرز کی واپسی کے لیے ایک پر زور مہم چل رہی ہے۔ پاکستان کے نامور صحافی حامد میر نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر سلمان حیدر کی تصویر کو شیئر کرتے ہوئے لکھا،’’ سلمان حیدر نے ہمیشہ گمشدہ افراد کے لیے آواز اٹھائی آج وہ اسلام آباد سے خود غائب ہو گئے ہيں۔‘‘
صحافی طٰحہ صدیقی نے پاکستانی نیوز چینلز پر تنقید کرتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا،’’ پاکستانی بڑے چینلز کے پرائم ٹائم خبرنامے میں سلمان حیدر اور دیگر بلاگرز کی بازیابی کے لیے کراچی میں کیے گئے احتجاج کا ذکر تک نہیں ہوا۔‘‘
سماجی کارکن جبران ناصر نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا،’’حکومت جلد از جلد ’پاکستان ڈیفنس‘ پیج چلانے والوں کو گرفتار کرے اور انہیں گمشدہ کارکنوں کے خلاف تشدد بھڑکانے کے جرم میں عدالت میں پیش کرے۔‘‘ جبران ناصر کے مطابق صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے۔ اس پیج کے ستر لاکھ فولوئرز ہیں اور یہ پیج لوگوں کو ان سماجی کارکنوں اور بلاگرز کے خلاف اشتعال دلوا رہا ہے۔
پاکستان کے اعلیٰ ترین انگریزی اخبار ڈان نے آج ایک طاقت ور اداریے میں لکھا ہے،’’ کسی کو ’مسنگ پرسن، یا ’غائب ہوجانا‘ کہلانا اس بھیانک سچ کو نہیں چھپا سکتا کہ پاکستانی ریاست کو مسلسل جبری طور پر لوگوں کو اٹھا لیے جانے اور ان کے غائب ہو جانے میں ملوث ہونے کے الزامات کا سامنا ہے۔‘‘ ڈان اخبار کے اداریے میں مزید لکھا گیا ہے’’ پولیس اہلکاروں اور حکومت کے لیے صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ غائب ہو جانے والے ان بلاگرز کی گمشدگی کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔‘‘