خاتون افغان گورنر کے لیے ’ایشیائی نوبل انعام‘
30 اگست 2013حبیبہ سرابی نے اپنے عہد گورنری میں وہ کچھ کرنے کی کوشش کی، جو بظاہر ناممکن لگتا تھا۔ گزشتہ آٹھ برسوں سے انہوں نے مردوں کی برتری والے افغان معاشرے میں اپنے صوبے میں خواتین کے حقوق کی صورتحال کی بہتری کے حوالے سے ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔ اس حوالے سے مگسیسے پراز کی جیوری نے ان کی کاوشوں کو سراہا۔
سرابی کا تعلق افغانستان کی تعلیم یافہ مڈل کلاس سے ہے، تاہم جنسی عدم مساوات افغانستان میں تقریباﹰ ہر خاندان ہی کا مسئلہ ہے۔ سرابی نے اپنے بچپن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا، ’میں اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی، تاہم میرے مقابلے میں میرے بھائیوں کو ہمیشہ زیادہ اہمیت حاصل رہی۔‘
تاہم 56 سالہ سرابی نے اس رویے کو اپنے لیے بہتری کی ایک وجہ قرار دیتے ہوئے کہا،’مجھے اسی وجہ سے زیادہ محنت کرنا پڑی اور میں نے زیادہ ذوق و شوق سے تعلیم حاصل کی۔ میں یہ ثابت کرنا چاہتی تھی کہ میں سب کچھ کر سکتی ہوں۔ میں بچپن میں بھی سوچا کرتی تھی کہ مرد اور عورت کے درمیان یہ تفریق کیوں ہے۔ خواتین کو اپنے لیے حقوق مانگنے کی ضرورت کیوں پڑتی ہے۔‘
حبیبہ سرابی نے حقوق کی یہ جنگ جاری رکھی۔ انہوں نے کابل میں فارمیسی کی تعلیم حاصل کی اور پھر جامعہ میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہو گئیں۔ سن 1996ء میں جب طالبان نے افغانستان کا کنٹرول حاصل کر لیا، تو وہ اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان منتقل ہو گئیں، جہاں وہ کئی برس تک ایک مہاجر بستی میں مقیم رہیں۔ سن 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے اور طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد وہ ایک مرتبہ پھر افغانستان چلی گئیں، جہاں انہیں سن 2003ء میں خواتین کے امور کی وزارت کا قلمدان سونپا گیا۔ سن 2005ء میں وہ بامیان صوبے کی گورنر بنیں۔ وہ افغانستان کی تاریخ میں اس عہدے پر فائز ہونے والی پہلی خاتون ہیں۔
بامیان صوبے میں شیعہ ہزارہ برادری کی اکثریت ہے، تاہم دیگر فرقوں کے لوگ بھی اس صوبے میں آباد ہیں۔ افغانستان کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں یہاں خواتین کے حقوق کی صورتحال قدرے بہتر ہے، جب کہ افغانستان کے دیگر علاقے کے مقابلے میں اسے زیادہ آزاد خیال تصور کیا جاتا ہے۔