خاتون امریکی صحافی کو ایران میں آٹھ سال کی قید
19 اپریل 2009رخسانہ صابری کی سزا کے حوالے سے ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے تہران کے پراسیکیوٹر سعید مرتضوی کو خط کے ذریعے ہدایت کی ہے کہ وہ اِس مقدمے کا ازسرِ نو جائزہ لیں تا کہ انصاف کو یقینی بنایا جا سکے۔ ایرانی صدر کی جانب سے خط تحریر کرنے پر رخسانہ صابری کے وکیا عبدالصمد خرم شاہی نے اطمننان کا اظہار کیا ہے۔
ایران میں گزشتہ پیر کے دن رخسانہ صابری کے خلاف ایک خصوصی عدالت میں مقدمے کا آغاز کیا گیا۔ Revolutionary Court میں ریاست کے سلامتی امور سے متعلق مقدمات کی سماعت کی جاتی ہے۔
رخسانہ صابری کے وکیل عبد الصمد خرم شاہی نے خبر رساں ادارے رائیٹرز کو بتایا کہ وہ اپنے موکلہ کو دی جانے والی سزا کے خلاف اپیل کریں گے۔ ایرانی دستور کے تحت ماتحت عدالت کی سزا کے خلاف اپیل بیس دنوں میں دائر کی جا سکتی ہے۔ ہفتے کے دن چھٹی ہونے کے باعث ابھی تک عدالت کی طرف سے اس سزا کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
کچھ ملکی خبررساں اداروں میں یہ بھی شائع کیا گیا کہ رخسانہ کو شراب خریدنے کے الزام میں گرفتار کیا کیونکہ اسلامی جمہوریہ ایران میں شراب کی خرید وفروخت پر پابندی عائد ہے۔
تاہم امریکہ نے رخسانہ صابری پر لگائے جانے والے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے، اُن کی فوری رہائی پر زور ڈالا ہے۔ اکتیس سالہ امریکی ایرانی شہری پیشے کے اعتبار سے فری لانس صحافی ہیں اور وہ برطانوی نشریاتی ادارے اور نیشنل پبلک ریڈیو کے لئے کام کر رہی ہیں۔
رخسانہ کے پاس ایران اور امریکہ کی دوہری شہریت ہے تاہم ایران دوہری شہریت تسلیم نہیں کرتا ہے۔
ایرانی عدالت کی طرف سے صحافی خاتون کو اُس وقت سزا دینے کافیصلہ کیا گیا ہے جب واشنگٹن ، تہران سے گزشتہ تین دہائیوں سے جاری بے اعتمادی کی فضا کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اِس مخصوص وقت میں یہ فیصلہ ایران اور امریکہ کے مابین دوبارہ تناؤ میں اضافے کاباعث ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ ایرانی پینل کوڈ کے مطابق حکومتی یا عسکری خفیہ معلومات کسی دوسرے ملک کو منتقل کرنے کی سزا موت ہو سکتی ہے۔ گزشتہ سال ایران میں ایک ایرانی تاجر کو اسرائیل کے لئے جاسوسی کرنے پر سزائے موت سنائی گئی تھی۔
امریکہ میں پیدا ہونے والی رخسانہ کو چھ اپریل کو اُس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب اُن کے صحافتی کاغذات کی معیاد ختم ہوئی۔ مارج میں ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ رخسانہ کے پاس صرف سن دو ہزار چھ تک کے لئے صحافتی کارڈ تھا اور بعد ازاں وہ ایران میں غیر قانونی طور پر رپورٹنگ کر رہی تھی۔ جبکہ رواں ماہ کے شروع میں نائب مستغیث اعلی نے کہا کہ رخسانہ دراصل ایک جاسوس ہے جو صحافی کا بھیس بدل کر کام کر رہی ہے۔
رخسانہ کو Evin جیل میں مقید کیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیوں کے مطابق اس جیل میں عموممی طور پر ان افراد کو رکھا جاتا ہے جو سیاسی قیدی ہوتے ہیں۔
جمعرات کو امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے کہا تھا کہ ایرانی حکام نے سوئس انٹرلوکیٹرز کے زریعے انہیں مطلع کیا تھا کہ رخسانہ کے خلاف مقدمے چلایا جائے گا۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان رابرٹ ووڈ نے ایرانی عدلیہ کی شفافیت کے بارے میں شکوک ظاہر کئے ہیں۔