خاتون خود کُش حملہ: ’بی ایل اے نے ایک تیر سے دو شکار کیے‘
27 اپریل 2022پاکستان کے سب سے بڑے اور دنیا کے بارہویں بڑے شہر کراچی کی جامعہ کے کنفیوشس انسٹیٹیوٹ میں تین چینی اساتذہ اور ایک پاکستانی ڈرائیور کی ہلاکت کا سبب بننے والے خود کُش حملے کے بارے میں وزارت داخلہ کے ایک اہلکار نے کہا کہ یہ حملہ ایک خاتون نے کیا۔ اس اہلکار نے اپنا نام ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ منگل 26 اپریل کو ہونے والا خود کُش حملہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی سائنس کی ایک خاتون ٹیچر نے کیا جس نے کراچی یونیورسٹی سے دوسری ماسٹرز ڈگری کے حصول کے لیے حال ہی میں اپنا اندراج کروایا تھا۔ دریں اثناء پولیس کی جانب سے تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اُدھر کراچی یونیورسٹی کی قائم مقام وائس چانسلر ناصرہ خاتون نے اس دہشت گردانہ واقعہ کے متاثرین کے گھر والوں سے 'دلی تعزیت‘ کا اظہار کیا۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا، ''ہمیں امید ہے کہ حکومت اس واقعے میں ملوث افراد کو سزا دے گی۔ ہمیں یقین ہے کہ ان عناصر تک پہنچنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جائیں گے۔‘‘
30 سالہ خاتون کی طرف سے دھماکے سے گاڑی کو اڑدا دیے جانے کے اس واقعے کے چینی زبان اور ثقافتی درس و تدریس کے انسٹیٹیوٹ کے باہر ہونے کی ممکنہ وجوہات کے بارے میں ڈوئچے ویلے نے کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی امور کے سابق پروفیسر اور پاکستان کے ایک معروف تجزیہ کار ڈاکٹرمونس احمر سے رابطہ کیا ان کا کہنا تھا، '' اس واقعے کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی ہے جو ایک عرصے سے چین کے پاکستان میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی مخالفت کرتی آئی ہے۔ یہ گروپ چین کی سرگرمیوں کو بھی بلوچ قوم کے حقوق کی پامالی کی ایک بڑی وجہ گردانتا ہے۔ ماضی میں بھی یہ دیامیر بھاشا ڈیم سمیت دیگر علاقوں میں حملے کرتے رہے ہیں۔ اس بار کراچی یونیورسٹی جیسی بڑی جامعہ میں اس طرح کا حملہ کر کے کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے بین الاقوامی توجہ اپنی طرف مبذول کروالی ہے۔‘‘
ڈاکٹر مونس احمر کا کہنا ہے کہ جب تک اس واقعے کی مکمل تفتیش نہیں ہو جاتی یقین کے ساتھ یہ کہنا کہ منی وین میں دھماکہ اس بلوچ خاتون خود کُش حملہ آور نے کیا، قبل از وقت ہوگا۔ ان کے بقول کچھ شواہد ایسے بھی ملنے کی خبر ہے کہ دھماکہ خیز مواد اس گاڑی میں موجود تھا۔ ڈوئچے ویلے نے جب ڈاکٹر مونس احمر سے پوچھا کہ کیا اس واقعے کو پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش قرار دیا جا سکتا ہے؟ انہوں نے کہا، ''کسی ایک حکومت کے اقتدار میں رہنے یا حکومتی تبدیلی سے اس کا کوئی تعلق نہیں بنتا البتہ پاکستان جیسے سیاسی عدم استحکام، سماجی بحران اور معاشی بدحالی کے شکار ملک کو مزید غیر مستحکم کرنے کے لیے کسی بیرونی طاقت کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں، ملک کے اندر خود اتنا انتشار اور تقسیم پائی جاتی ہے کہ اس قسم کے دہشت گردانہ حملے کسی اچھنبے کا تو نہیں لیکن افسوس کا سبب ضرور ہیں۔‘‘
کراچی یونیورسٹی ایک عرصے سے ماضی کے مقابلے میں نسبتاً پُرامن رہی ہے۔ ایسے میں اچانک اس نوعیت کے دہشت گردانہ حملے کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہو سکتے ہیں؟ اس بارے میں ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے جامعہ کراچی شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی پروفیسر شائستہ تبسم کا کہنا تھا، ''کراچی یونیورسٹی ایک بہت بڑا ادارہ ہے جہاں ملک بھر کے علاوہ غیر ملکوں سے بھی طلبہ اور اساتذہ آتے ہیں۔ کچھ عرصے سے سکیورٹی بھی کافی نرم کر دی گئی ہے گاڑیاں اور پبلک ٹرانسپورٹ بھی بغیر کسی روک ٹوک کے اب آ جا سکتی ہے۔ دیگر ایسے مقامات جہاں چینی یا دیگر غیر ملکی موجود ہوں، وہاں سکیورٹی سخت ہوتی ہے۔ کراچی یونیورسٹی اس وقت دہشت گردوں کے لیے ایک سافٹ ٹارگٹ تھا جہاں چینی اور دیگر غیر ملکی بغیر کسی سکیورٹی کے انتظام کے اپنی کلاس رومز سے اپنی رہائش گاہوں کی طرف آتے جاتے رہتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر تبسم نے کہا کہ یہ حملہ دراصل سی پیک پر کیا گیا اور اس وقت کا تعین اس بات کا ثبوت ہے۔ ان کا کہنا تھا، '' اس وقت جو شریف حکومت بر سر اقتدار ہے اس کے بارے میں یہی خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے ماضی میں بھی سی پیک پر غیر معمولی توجہ مرکوز رکھی جبکہ اس سے پہلے والی حکومت کے دور میں سی پیک پر کام کافی حد تک سست روی کا شکار ہوا تھا۔ جس گروپ نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی ہے وہ موجودہ حکومت کو یہ پیغام دینا چاہتی تھی کہ سی پیک پر دوبارہ سے تیزی سے کام شروع کرنے سے باز رہا جائے۔ کیونکہ بی ایل اے اراکین یہ سمجھتے ہیں کہ سی پیک سے بلوچستان کی خود مختاری اور اس کے ریسورسز غیر ملکی کنٹرول میں چلے جائیں گی۔ چینیوں کو ہدف بنانا اس وقت واضح اشارہ تھا۔‘‘ پروفیسر شائستہ تبسم کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ بلوچ لبریشن آرمی نے مبینہ طور پر ایک خاتون خود کُش حملہ آور کو اس حملے کے لیے استعمال کیا اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بلوچ لبریشن آرمی نے اپنی پاور کا مظاہرہ کیا ہے یعنی یہ ظاہر کیا ہے کہ مرد ہی نہیں بلکہ خواتین بھی ان کی صفوں میں شامل ہیں اور بلوچ عوام کے حقوق کے لیے لڑنا چاہتی ہیں۔ پروفیسر تبسم کا کہنا ہے، ''کسی بھی موومنٹ یا گروپ کو طاقتور بنا کر پیش کرنے کے لیے خواتین خود کُش بم حملہ آوروں سے کام لیا جاتا ہے۔‘‘
پاکستان: چینی شہریوں کی گاڑی پر ایک اور خود کش حملہ
دوسرے یہ کہ دنیا بھر میں جہاں کہیں خواتین خود کش بم حملہ آوروں نے کارروائی کی اُسے انٹر نیشنل میڈیا میں بہت پبلسٹی ملی ان واقعات کو بہت وسیع پیمانے پر کوریج ملتی ہے۔ ایک لڑکی کو خود کش حملے کے لیے استعمال کرکے دو مقاصد پورے کیے گئے۔ ڈاکٹر تبسم نے کہا، ''ایک مقصد تو یہ کہ بین الاقوامی توجہ بذریعہ میڈیا حاصل کی جائے دوسرے یہ ظاہر کرنا کہ یہ کاز کتنا سنگین ہے اور پورے معاشرے میں اس کی جڑیں کتنی گہری ہیں کہ اس مقصد کے حصول کے لیے لڑکیاں اور خواتین تک اپنی جان تک کی قربانیاں دینے سے گریز نہیں کرتیں۔‘‘
خود کُش بم حملہ آور قریب پانچ سال کی عمروں کے دو بچوں کی ماں تھی۔ اس حقیقت کے پیش نظر ڈاکٹر شائستہ تبسم نے ایک اور پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا، ''اس قسم کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے اکثر تنظیمیں ایسے لوگوں کو استعمال کرتی ہیں جو ذہنی طور پر بہت مستحکم نہیں ہوتے۔ اس کیس میں چھوٹے چھوٹے بچوں کی ماں کا کسی کاز کے لیے اتنا خود کو ملوث کر لینا کہ جان تک دینے کے لیے تیار ہونا کسی نارمل ذہنی حالت والے انسان کا کام نہیں۔ ایسے لوگوں کی کوئی نا کوئی ذہنی یا نفسیاتی مشکلات ہوتی ہیں اور دہشت گرد باآسانی ان کا استحصال کرتے ہیں۔‘‘
کشور مصطفیٰ