بی ایم کُٹی پاکستان کی ترقی پسند سیاست کے ایک اہم راہ نما اور کارکن تھے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی عوامی سیاست میں گزاری اور آخر میں اپنی جدوجہد کی تاریخ لکھی۔ اس کی رونمائی کراچی کے پی ایم ہاؤس میں تھی۔ جبکہ کتاب کی کاروائی جاری تھی۔ پسَ منظر میں ٹریفک کا شوروغل تھا۔ بے ہنگم آوازیں جن کا سلسلہ مسلسل جاری تھا۔
اس ماحول میں درخت پر بیٹھی کوئل نے جب اپنی سریلی آواز نکالی تو ایسا محسوس ہوا کہ شاید ٹریفک کی بے ہنگم آوازیں خاموش ہو گئیں اور کوئل کی آواز نے ماحول کو خوشگوار بنا دیا۔
اب جب میں تاریخ کا مطالعہ کرتا ہوں تو اس میں مجھے ریاستی جبر، سخت قوانین اور عوامی رد عمل، جو روایات کا پابند ہے اور عقیدے کی گرفت میں ہے، بے ہنگم ٹریفک کے شور و غل کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر ریاستی جبر اور پابندیوں کے خلاف کوئی آواز اٹھتی ہے تو اسے دبا دیا جاتا ہے، کیونکہ خاموشی میں حکمراں طبقوں کی طاقت کا راز پوشیدہ ہے۔
علاؤالدین خِلجی کے خلاف جب سازشیں شروع ہوئیں تو ان کو روکنے کے لیے اس نے مخبروں کو تیار کیا کہ وہ محفلوں میں جا کر وہاں جو بھی بات چیت اور گفتگو ہو اس سے اسے باخبر رکھیں۔
یہ بھی پڑھیے: میں نے تاریخ سے کیا سیکھا - ڈاکٹر مبارک علی کی تحریر
لوگ مخبروں کی موجودگی سے اس قدر خوفزدہ ہوئے کہ انہوں نے اپنی بات چیت میں کوشش کی کہ ان پر کوئی شازشی ہونے کا الزام نہ لگے۔ مشہور مورخ ضیاءالدّین برنی نے اپنی کتاب تاریخ فروز شاہی میں لکھا ہے۔ کہ اُمراء کُھل کر بات کرنے کے بجائے اشاروں اور کناؤں میں اپنا مفہوم بیان کرتے تھے۔
یورپی عہد وسطی کی تاریخ میں چرچ بے انتہا طاقتور ادارہ تھا۔ یہ پیدائش سے لے کر موت تک لوگوں پر اپنا تسلط رکھتا تھا۔ اس کا اِنکلوزیشن کا ادارہ مذہب کی تعلیمات کے خلاف ذرا بھی شک و شُبے پر افراد کو گرفتار کر کے مقدمہ چلا کر اسے زندہ جلا دیتا تھا۔ اِنکلوزیشن کے عہدیدار شہر شہر اور گاؤں گاؤں پھرتے تھے، اور مذہب سے مُنحرف افراد کے بارے میں معلومات حاصل کرتے تھے۔ یہ جہاں بھی جاتے تھے لوگوں میں ڈر اور خوف طاری ہو جاتا تھا۔
اسپین میں جو یہودی اور مسلمان مجبوری کے تحت مسیحی ہو گئے تھے۔ ان پر اِنکلوزیشن کو شبہ رہتا تھا کہ یہ خفیہ طور پر اپنے آبائی مذہب کو مانتے ہیں۔ لہذا ذرا سے شبہ پر اِن کو سزا دی جاتی تھی اور ان کی جائیداد ضبط کر لی جاتی تھی۔ اسپین میں چرچ اس قدر طاقتور ہوا کہ بادشاہ بھی اس کے سامنے بے بس ہو گیا۔ چرچ کی اس پالیسی نے اسپین کی علمی و ادبی آزادی کو ختم کر کے اسے پسماندہ بنا دیا۔
ریاست کا یہ جبر ہمیں موجودہ عہد میں آمرانہ حکومتوں میں نظر آتا ہے۔ نیپولین جب فرانس میں 1799 میں اقتدار میں آیا اور پھر فرانس کا شہنشاہ بن گیا، تو اس نے علمی آزادی کو ختم کر کے اپنے اقتدار کو مضبوط کیا اس کے عہد میں اخباروں، رسالوں اور کتابوں کی اشاعت گھٹ گئی۔ وہی باقی رہے جنہوں نے خوشامدانہ پالیسی کو اختیار کیا۔
نیپولین نے ان پرنٹنگ پریسوں کو بھی بند کرا دیا۔ جو انقلابی لٹریچر شائع کرتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کو فرانس کا ذہنی ماحول بدل گیا اور کوئی تخلیقی کام اس کے عہد میں نہیں ہوا۔
نیپولین کا یہ ماڈل تھا جسے جدید دور میں ایشیا اور افریقہ اور لاطینی امریکہ کے آمروں نے اختیار کیا۔ اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبایا۔ دانشوروں کو قید و بند کی سزائیں دیں۔ مخبری کے اداروں کے ذریعے لوگوں کے خیالات کو ان کے خلاف استعمال کیا۔ ان کی کتابوں کی اشاعت بند کر دی۔ اُن کی تقریروں پر پابندی لگا دی۔ تعلیمی اداروں کا نصاب بدل دیا گیا۔ ان حالات میں یا تو دانشوروں نے جلاوطنی اختیار کی یا پھر خاموشی۔
یہ بھی پڑھیے: قوموں کا اچانک گرنا
جب ریاست کا جبر اور پابندیاں سخت ہو جائیں تو ایک ایسے معاشرے میں تخلیقی صلاحیتوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے، اور اس کی جگہ سطحی ادب، شاعری، آرٹ اور موسیقی جگہ لے لیتی ہے۔ ایسے تاریخی ناول لکھے جاتے ہیں۔ جن کا بیانیہ مسخ شدہ تاریخ پر ہوتا ہے۔ یہ ماحول معاشرے کو اِس قدر پسماندہ کر دیتا ہے۔ کہ عام لوگوں کی ذہنی حالت بھی زوال کا شکار ہو جاتی ہے۔
جب کسی بھی تہذیب اور کلچر میں فرسودہ روایات کو چیلنج نہ کیا جائے اور لوگوں کے ذہن کو بدلنے کی کوشش نہ کی جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ریاست کا جبر اور عوام کی اکثریت کی اَمریت دونوں مل جاتی ہیں۔ ایسے میں دانشور اور اسکولرز خاموش ہو کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا خاتمہ کر دیتے ہیں۔
پاکستان بھی آمرانہ حکومتوں کے دَور سے گزرا ہے۔ یہاں بھی ترقی پسند دانشوروں کی آوازوں کو دبایا گیا۔ آئی ایچ برنی کے رسالے outlook کو ایک مرتبہ ایوب خان کی حکومت نے بند کیا۔ دوسری مرتبہ بھٹو حکومت نے سِس کی اشاعت پر پابندی لگا دی۔ آمرانہ حکومتوں کے جبر کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ معاشرے میں خوشامد کے کلچر کو فروغ ہوا۔ معاشرے کے ہر طبقے نے آمروں کی خوشامد کر کے انہیں ہیرو بنا دیا۔
دوسرا نقصان یہ ہوا کہ مزاحمت کی تحریکیں کمزور پڑ گئیں اور اس کے بجائے سمجھوتوں کا کلچر شروع ہوا۔ خوشامد اور سمجھوتہ دو ایسے عناصر تھے جس نے معاشرے کے شعور، سوچ اور ترقی کے جذبات کو ختم کر دیا۔ یہ کلچر ایک جگہ رکا نہیں۔ بلکہ برابر آگے بڑھتا گیا اور آج پاکستانی معاشرہ جس مرحلے پر ہے اس میں نہ اخلاقی قدریں ہیں نہ اپنی ذات پر اعتماد اور فخر ہے اور نہ ہی اپنے ماحول کو تبدیل کرنے کا احساس ہے۔ اگرچہ ہر جانب بے ہنگم شور و غل تو ہے مگر اس کو روکنے کے لیے کسی کوئل کی سریلی آواز نہیں ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔