خلیج میکسیکو میں ایک نیا آپریشن شروع
2 جون 2010یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب اس تیل کمپنی کے حصص کی قیمتوں میں مسلسل کمی ہو رہی ہے اور امریکی حکومت بھی شدید نوعیت کی ماحولیاتی تباہی کا باعث بننے والے اس حادثے کی چھان بین کر رہی ہے۔ برٹش پڑولیم نے چند روز قبل خلیج میکسیکو کے پانیوں میں سمندر کی تہہ سے اس تیل کے اخراج کو روکنے کے لئے ’آپریشن ٹاپ کل‘ بھی شروع کیا تھا، جو مسلسل کوششوں کے باوجود ناکام رہا تھا۔ اب روبوٹ کے طور پر کام کرنے والی ایک آبدوز کی مدد سے یہ کمپنی پہلے تیل کے کنویں میں اُس پائپ کو کاٹے گی جہاں سے تیل خارج ہو رہا ہے اور پھر اس کنویں کے کٹے ہوئے پائپ کے اوپر والے حصے کو ایک دوسرے پائپ کے ساتھ جوڑ کر اس طرح بند کر دیا جائے گا کہ سمندر میں تیل کا اخراج بند ہو جائے۔ اس مقصد کے لئے تیل کے بہاؤ کو قابو کرنے والا ایک بڑا گبند نما ڈھانچہ اس کنویں کے منہ پر رکھا جائے گا، جو اس خارج ہوتے ہوئے تیل کو ایک پائپ کے ذریعے قریب ایک میل کے فاصلے پر سمندر میں کھڑے ایک بحری جہاز تک پہنچائے گا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اب تیل کے اس اخراج کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کے بہاؤ کو صرف محدود ہی کیا جا سکتا ہے۔ امریکی کوسٹ گارڈز کے ایڈمرل Thad Allen کا کہنا ہے کہ جس کنویں سے تیل نکل رہا ہے وہ اُسے مکمل طور پر بند کرنے کی بات نہیں کر رہے بلکہ یہ کہ تیل کے اس اخراج کو محدود کرنے کو کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ایڈمرل ایلن کا کہنا ہے کہ اس آپریشن میں کئی گھنٹے لگ سکتے ہیں۔
امریکی اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ اگر امریکی حکومت کو اس بات کے شواہد ملے کہ خود برٹش پٹرولیم کا غیر ذمہ دارانہ رویہ اس حادثے کا سبب بنا، تو واشنگٹن حکومت کی طرف سے BP کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
ماہرین کے مطابق 20 اپریل کو پیش آنے والے اس حادثے کے بعد سے اب تک روزانہ تقریبا تین ملین لٹر تیل خارج ہو کر مسلسل سمندر میں شامل ہو رہا ہے، اور اس وجہ سے اب تک نہ صرف شدید ماحولیاتی تباہی دیکھنے میں آئی ہے بلکہ مزید تباہی کا بھی امکان ہے۔
تحفظ ماحول کے لئے کام کرنے والی امریکی تنظیمیں اپریل کے مہینے میں شروع ہونے والے اس تیل کے اخراج پر چراغ پا ہیں کیونکہ ان کے مطابق یہ حادثہ نہ صرف قدرتی ماحول کے لئے انتہائی حد تک تباہی کا باعث بن رہا ہے بلکہ اس وجہ سے آبی حیات بھی شدید متاثر ہو رہی ہے۔
رپورٹ: عبدالستار
ادارت: مقبول ملک