خلیج میکسیکو میں تباہی کی ذمہ دار بی پی ہے، اوباما
3 مئی 2010باراک اوباما نے اتوار کو خلیج میکسیکو کے علاقے میں اس حادثے سے متاثرہ امریکی ریاست لوئیزیانا کا دورہ کیا۔ وہ موسلادھار بارش اور تیزہواؤں کے باوجود مقامی بندرگاہ Venice ہاربر پہنچے، جو اس وقت ایمرجنسی کارروائیوں کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ انہوں نے سمندر میں بہہ جانے والے تیل کی مسلسل پھیلتی جا رہی تہہ کو غیرمعمولی حد تک شدید ماحولیاتی تباہی قرار دیا۔
اوباما نے اس تباہی کی تمام تر ذمہ داری برٹش پٹرولیم نامی کمپنی پر عائد کی۔ حادثے کا شکار ہونے والا ڈرلنگ پلیٹ فارم اسی ادارے کے زیرانتظام کام کر رہا تھا۔ امریکی صدر نے کہا: ’’میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں۔ اس صورت حال کی ذمہ دار BP ہے۔ اخراجات کی ادائیگی بھی BP ہی کرے گی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ حکومت نے پہلے دن سے ہی ہنگامی کارروائیوں میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی اور مستقبل میں بھی تمام تر کوششیں کی جائیں گی۔
صدر اوباما نے لوئیزیانا کے شہریوں کو درپیش مشکلات کا بھی اعتراف کیا۔ خبر رساں ادارے AFP کے مطابق ان کے دورے کا مقصد اس امریکی ریاست کے عوام کو یہ دکھانا تھا کہ امریکی صدر اور حکومت اس مشکل وقت میں ان کے ساتھ ہیں۔
باراک اوباما نے کہا: ’’تیل ابھی تک بہہ رہا ہے، اس سے ہماری خلیجی ریاستوں کی معیشت اور ماحول پر تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، جو طویل عرصے تک باقی رہ سکتے ہیں۔ اس سے ان ہزاروں امریکیوں کا روزگار خطرے میں پڑ سکتا ہے، جو اس علاقے کو اپنا گھر کہتے ہیں۔‘‘
قبل ازیں اتوار کو امریکی حکومت نے خلیج میکسیکو کے علاقے میں تیل کی مسلسل پھیلتی جا رہی تہہ سے متاثرہ علاقوں میں تجارتی اور تفریحی مقاصد کے لئے مچھلی کے شکار پر دس روز کے لئے پابندی کا اعلان کر دیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس پابندی کا اطلاق صرف متاثرہ علاقوں پر ہی ہوگا جبکہ فی الحال مارکیٹ میں دستیاب ’سی فُوڈ‘ قابل استعمال ہے۔
خلیج میکسیکو میں سمندر کی تہہ سے تیل نکالنے کے لئے نصب ڈرلنگ پلیٹ فارم پر 20 اپریل کو ایک دھماکہ ہوا تھا، جس کے دو دن بعد یہ پلیٹ فارم ڈوب گیا۔ اس حادثے میں 11 کارکن ہلاک ہوئے تھے۔
خیال رہے کہ لوئیزیانا ریاست کی تقریبا ڈھائی بلین ڈالر کی مچھلی کی صنعت ملکی ضروریات کا ایک تہائی حصہ پورا کرتی ہے جبکہ خلیج میکسیکو کے پانیوں کو مچھلی، جھینگوں اور کیکڑوں کی پیداوار کے لئے بہترین قرار دیا جاتا ہے۔ یہ علاقہ نقل مکانی کرنے والے پرندوں کی ایک مرکزی قیام گاہ بھی ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: مقبول ملک