خواتین صحافیوں پر حملے، پارلیمانی کمیٹی نے بات تو سنی
19 اگست 2020پاکستان میں سوشل میڈیا کے استعمال میں جوں جوں تیزی آئی ہے، خواتین صحافیوں پر آن لائن حملے بھی اتنے ہی بڑھے ہیں۔ صحافیوں کی جانب سے پاکستان میں آزادی صحافت کی مسلسل ابتری کی شکایت اور خصوصاﹰ خواتین صحافیوں کو منظم انداز سے نشانہ بنائے جانے کے واقعات بڑھے ہیں۔
اس حوالے سے مختلف خواتین صحافیوں کی جانب سے ایک مشترکہ اعلامیے کے سامنے آنے کے بعد قومی اسمبلی کی انسانی حقوق سے متعلق کمیٹی نے ان خواتین صحافیوں کی شکایات سنی۔ اس کمیٹی کی سربراہی پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کر رہے تھے، جب کہ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری بھی اس کمیٹی کی رکن ہیں۔
پاکستانی اخبار فرائے ڈے ٹائمز کی ایڈیٹر آئما کھوسہ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ کورونا وائرس لاک ڈاؤن کے دنوں میں حکومتی عہدیداروں کی جانب سے بالخصوص ُان خواتین صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا، جنہوں نے وفاقی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید یا سندھ حکومت کی کارکردگی کی تعریف کی تھی۔
''خواتین صحافیوں کے حوالے سے گالیوں اور دیگر نازیبا الفاظ پر مبنی اس مہم میں حکومتی رہنما پیش پیش تھے۔ مثال کے طور پر تیمور جھگڑا (صوبائی وزیر برائے خزانہ، خیبر پختونخوا) نے بے نظیر شاہ سے متعلق ٹوئٹ کیا۔ اسی طرح وزیراعظم کے مشیر برائے ڈیجیٹل میڈیا کی جانب سے بھی اسی انداز کے ٹوئٹس کیے گئے۔‘‘
آئما نے بتایا، ''حکومتی عہدیدار تنقید کرنے والی صحافی خواتین کو 'فیک نیوز‘ اور 'لفافہ جرنلسٹ‘ جیسے الفاظ سے پکارتے ہیں اور پھر اپنے سوشل میڈیا سیلز کو ٹرولنگ کا کام سونپ دیتے ہیں۔‘‘
ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے معروف صحافی عاصمہ شیرازی نے کہا کہ پاکستانی معاشرے میں خواتین کے کاندھوں پر پہلے ہی سماجی روایات کا بوجھ ہوتا ہے، جس میں 'عزت اور وقار کا تحفظ‘ شامل ہے۔ ایسے میں سوشل میڈیا ٹرولز جان بوجھ کر خواتین صحافیوں کے خلاف گندی گالیوں سمیت ایسے زبان کا استعمال کرتے ہیں کہ جس سے ان صحافیوں کو ذہنی اور خاندانی سطح پر تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
عاصمہ شیرازی نے کہا، ''ماضی میں طالبان اور لشکر جھنگوی سمیت مختلف مسلح گروہوں کی جانب سے ہراساں کرنے کے لیے گولی کی دھمکی دی جاتی تھی، تاہم ہم اس سے مرعوب نہیں ہوئے اور اس لیے شاید سوچا گیا کہ گولی کی بجائے گالی سے خواتین صحافیوں کو روکا جائے اور کسی حد تک وہ کامیاب ہوئے بھی۔ میں نے جب سے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی کووریج کے لیے سفر کیا، اس کے بعد سے حالات آپ جانتے ہی ہیں۔ گالیوں تو ایک طرف دو مرتبہ میرے گھر پر حملہ ہوا۔‘‘
عاصمہ شیرازی کے مطابق ان تمام واقعات پر بہت سے حلقوں کی جانب سے مذمت کی گئی، مگر خواتین صحافیوں نے آواز نہیں اٹھائی، ''اس لیے میں نے دانستہ فیصلہ کیا مجھے غیرمشروط طور پر ان خواتین کے ساتھ کھڑے ہونا ہے۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ کل پارلیمانی کمیٹی کی سماعت میں انہوں نے وہ گالیاں دوہرائیں بھی، جو آن لائن ٹرولنگ کے لیے خواتین صحافیوں کے خلاف استعمال کی جاتی ہیں۔ '' جو الفاظ ہم اپنے گھروں میں اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ بیٹھ کر ادا بھی نہیں کر سکتے وہ ہمیں ہر روز سننے کو ملتے ہیں۔ ہمیں فقط جنس کی بنیاد پر کنجری، گشتی، رنڈی، طوائف اور جانے کیا کیا کہا جاتا ہے۔‘‘
عاصمہ شیرازی نے کہا کہ خواتین صحافیوں کو 'ریپ کی دھمکیاں‘ بھی دی جاتی ہیں۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں ٹی وی اینکر غریدہ فاروقی نے کہا کہ خواتین کی جانب سے مشترکہ آواز اٹھانے کی وجہ سے ایک طرف تو خواتین صحافیوں کی شکایت پارلیمانی سطح پر پہنچی اور دوسری جانب عالمی میڈیا نے بھی اس پر رپورٹنگ کی۔
''مجھے آن لائن ٹرولنگ کی وجہ سے چار بار اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے۔ کیوں کہ محض رپورٹنگ پر ہمیں کسی پارٹی سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ پھر ہم کسی سیاست دان کا انٹرویو کریں، تو سوشل میڈیا پر اس کے ساتھ افیئر کی خبریں گردش کرنے لگتیں ہیں۔ ایسے میں سیاست دان بھی انٹرویو دینے سے کترانے لگتے ہیں۔‘‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا، ''پاکستانی خواتین نے اکھٹے ہو کر ایک اور حد توڑ دی۔ انہوں نے مل کر قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے۔ انہوں نے مل کر پارلیمان کے سامنے ڈیجیٹل اسپس میں ہراساں کیے جانے کی اپنی ناقابل بیان کہانی بیان کر دی ہے۔ انہوں مل کر ہمت اور بہادری کی ایک نئی داستان لکھ دی ہے۔