خواتین میں کورونا ویکسین کے منفی اثرات، مگر ریسرچ کیوں نہیں
18 جولائی 2021امریکی طبی شعبے کا کہنا ہے کہ ابھی تک جن افراد کو ویکسین لگائی گئی ہے، ان میں سے 0.001% افراد میں شدید منفی اثرات ظاہر ہوئے ہیں۔ اب تک کے حاصل شدہ اعداد و شمار کے مطابق خواتین میں ویکسین کے منفی اثرات مردوں کے مقابلے میں زیادہ ظاہر ہوئے ہیں۔ ایسے شدید منفی اثرات میں خاص طور پر ویکسین کے خلاف انسانی جسم کا ردعمل جسے الرجی بھی کہا جا سکتا ہے۔ بہت ہی کم سامنے آیا ہے۔
خواتین میں ردعمل
رواں برس جون میں سوئٹزرلینڈ کی حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار سے معلوم ہوا کہ کورونا ویکسین لگانے کے بعد انہتر فیصد کے قریب منفی اثرات یا ردعمل خواتین میں دیکھے گئے۔ امریکا میں یہ شرح اناسی فیصد سے زائد ہے۔ یہ شرح ابتدائی چودہ ملین کے قریب افراد کو لگائی جانے والی ویکسین کے نتائج سے معلوم ہوئی تھی۔ ناروے میں رواں برس اپریل میں یہی شرح تراسی فیصد ریکارڈ کی گئی۔ ویکسین کے رد عمل کے حوالے سے یہ اعداد و شمار انتہائی کم ہیں۔
پاکستان میں اگلے ماہ کورونا کی وبا کی چوتھی لہر کا خدشہ
ویانا میں واقع میڈیکل یونیورسٹی کی یوروامیونولوجسٹ ماریا ٹیریسا فیریٹی کا خیال ہے کہ اس ڈیٹا کو کسی بھی صورت میں غیر معمولی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ فیریٹی نے ایک غیر حکومتی تنظیم 'ویمنز برین‘ بھی قائم کر رکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ویکسین کے ردعمل میں عورت اور مرد کا رویہ مختلف ہونا یقینی ہے۔ فیریٹی کے مطابق ویکسین لگانے کے بعد مردوں کے مقابلے میں عورتیں اینٹی باڈیز زیادہ پیدا کرتی ہیں اور اس باعث ان کا ردعمل بھی مختلف ہوتا ہے۔
ویکسین اور خواتین
سن 1990 سے لیکر سن 2016 تک جاری رہنے والی ایک طویل ریسرچ میں بھی ظاہر ہوا تھا کہ خواتین ویکسین کے حوالے سے زیادہ زُود حس واقع ہوئی ہیں۔ سن دو ہزار نو میں ایچ ون این ون (H1N1) ویکسین لگانے میں خواتین میں زود حسی مردوں کے مقابلے میں چار گنا زیادہ پائی گئی تھی۔ یہ ویکسین اس وقت سوائن فلُو کی وبا کو روکنے کے لیے بنائی گئی تھی۔
بعض دوسری تحقیقی بھی ظاہر کرتی ہیں کہ سیکس ہارمونز بھی انسانی مدافعتی نظام پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں کی گئی مزید ریسرچ سے بھی معلوم ہوا ہے کہ خواتین میں خود بخود علیل ہونے کا امکان مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔
کووڈ ویکسین: بھارتی طلبہ ایک نئی مصیبت میں گرفتار
مدافعتی نظام اور انسانی جنس
امریکا کی جان ہوپکنز یونیورسٹی کی ہیلتھ ریسرچر روزمیری مورگن کے مطابق بائیولوجیکل فیکٹرز بھی انسان (عورت، مرد یا انٹرسیکس) کے اِمیون یا مدافعتی نظام کا احاطہ کرتے ہیں۔ ریسرچ نے ظاہر کیا ہے کہ مردوں میں ٹیسٹوسٹیرون مدافعتی نظام کو دبانے کی قوت رکھتے ہیں۔سماجی رابطے اور رویے بھی کئی انسانوں میں اندرونی نفسیاتی عوارض میں کمی کا باعث ہو سکتے ہیں۔
روزمیری مورگن کا کہنا ہے کہ اکیلا مرد وبا کے ایام میں بھی ماسک پہننے میں قباحت اور ہاتھ دھونے کو سردرد خیال کرتا ہے لیکن اگر وہ کسی کے ساتھ ہو تو ایسا کرنے میں عار محسوس نہیں کرتا۔ مورگن نے اس عمل کو مرد کا ایک پیچیدہ فعل خیال کیا ہے۔
کلینیکل ریسرچ اور خواتین
روزمیری مورگن کا کہنا ہے کہ امریکا میں ویکسین کی تیاری میں سن 1993 تک مردوں پر ہی اس کی کلینیکل آزمائش کی جاتی تھی اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ ادویات سازی صرف مرد کو سوچ کر کی جاتی تھی۔ سن 1993 کے بعد ہی عورتوں کو شامل کیا جانے لگا۔
ایشیا میں کورونا وائرس کی تبدیل شدہ اشکال، دنیا کے لیے بڑا خطرہ
مورگن کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی ویکسین کے دوران بھی یہ سامنے نہیں رکھا گیا کہ اس کا کسی عورت کی صحت پر کیسا منفی اثر مرتب ہو سکتا ہے۔ نیوروامیونولوجسٹ ماریا ٹیریسا فیریٹی کا کہنا ہے بظاہر یہ ایک سطحی رویہ ہے جو تبدیلی کا طلب گار ہے اور اب زیادہ گہرائی کی حامل ریسرچ وقت کی ضرورت ہے۔ فیریٹی کے مطابق یہ تاثر عام ہے کہ تمام مریض یکساں ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ درست نہیں ہے۔
چارلی شیلڈ (ع ح / ع ا)