خواتین کی کم تر سماجی حیثیت، ایشیا کے مستقبل کے لیے خطرہ
19 اپریل 2012چین کے شہر شنگھائی سے ملنے والی رپورٹوں میں خبر ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ بہت اعلیٰ عہدوں پر فائز ایشیائی خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں انتہائی حد تک کم ہونے کی مثال ایشیا کے جاپان جیسے امیر اور ترقی یافتہ ملکوں میں بھی نظر آتی ہے۔ یہ بات اُس رپورٹ میں کہی گئی ہے جو آج جمعرات کو جاری کی گئی۔
یہ رپورٹ ایشیا سوسائٹی نامی تنظیم کے ایک سروے کے نتائج پر مشتمل ہے۔ اس میں یہ جائزہ لیا گیا ہے کہ سیاسی قیادت، اقتصادی کارکردگی اور صحت اور تعلیم جیسے شعبوں میں ایشیائی خواتین کی موجودہ حیثیت کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایشیائی ملکوں میں خواتین کی صلاحیتوں سے پورا فائدہ نہیں اٹھایا جاتا۔ اس لیے وہاں خواتین کی سماجی حیثیت میں بہتری کی اشد ضرورت ہے تاکہ یہ خطہ اپنی افرادی قوت کے اس حصے سے اچھی طرح مستفید ہو سکے۔
ایشیا سوسائٹی کی اس رپورٹ کے مطابق بہت سے ایشیائی معاشروں میں خواتین کی مختلف شعبوں میں حیثیت بڑی متنوع ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر ایشیا میں خواتین سے متعلق یہی رجحان جاری رہا، تو اس براعظم کی اب تک حاصل کی جانے والی بہت سی کامیابیاں ضائع ہو جائیں گی۔
یہ رپورٹ ایسٹرِڈ تُومینیز نامی ایک خاتون ماہر نے تیار کی ہے، جو سنگاپور کے لی کوآن یُو پبلک پالیسی اسکول کی ایک پروفیسر ہیں۔ پروفیسر تُومینیز اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ ایشیائی معاشروں میں خواتین کے ملازمتیں کرنے پر روایتی پابندیوں سے اقتصادی پیداواری حوالے سے ایشیا کو سالانہ 89 بلین ڈالر کے برابر نقصان ہوتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، فلپائن، سری لنکا اور منگولیا میں مردوں اور خواتین کے درمیان اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کی شرح کے حوالے سے پایا جانے والا فرق سب سے کم ہے۔ اس کے برعکس پاکستان، نیپال، بھارت، جنوبی کوریا اور کمبوڈیا میں یہی فرق سب سے زیادہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چند ملک ایسے بھی ہیں جہاں انسانی ترقی کے سلسلے میں تو سب سے زیادہ بہتری دیکھنے میں آئی ہے مگر وہاں بہت اعلیٰ عہدوں پر فائز خواتین کا تناسب انتہائی غیر تسلی بخش ہے۔ ایسے ایشیائی ملکوں میں جاپان اور جنوبی کوریا سب سے نمایاں ہیں۔
ایشیا سوسائٹی کی آج جاری کردہ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایشیائی معاشروں میں خواتین کی کم تر سماجی حیثیت کا مسئلہ بچیوں کی پیدائش سے بھی پہلے سے شروع ہو جاتا ہے۔ اس کا سبب وہاں اسقاط حمل کے وہ واقعات ہیں جو ماں کے پیٹ میں بچے کی جنس کا پتہ چلنے کے بعد کرائے جاتے ہیں۔ کئی ملکوں میں پیٹ میں موجود بچے کے بارے میں اگر یہ پتہ چلے کہ وہ لڑکی ہے تو اسے پیدائش سے پہلے ہی مار دیا جاتا ہے۔ ایسے سب سے زیادہ واقعات چین اور بھارت میں دیکھنے میں آتے ہیں۔ ان ملکوں میں بیٹیوں کے مقابلے میں بیٹوں کی پیدائش کو ترجیح دی جاتی ہے۔ یہی دونوں ایشیائی ملک دنیا میں آبادی کے لحاظ سے دو سب سے بڑے ملک بھی ہیں۔
یہی نہیں کئی ملکوں میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں سے متعلق اس سماجی تعصب کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچیوں کو کم تر یا ناکافی طبی، تعلیمی اور غذائی سہولیات میسر ہوتی ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق تعلیمی حوالے سے اس فرق کا نتیجہ یہ ہے کہ چار ایشیائی ملکوں میں خواتین کی اکثریت ناخواندہ ہے۔ بھوٹان میں خواتین میں خواندگی کی شرح صرف 10 فیصد، پاکستان میں 16 فیصد، نیپال میں 25 فیصد اور بنگلہ دیش میں محض 31 فیصد ہے۔
یہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے ایشیا سوسائٹی کی خاتون صدر ویشاکھا ڈیسائی نے کہا کہ ایشیا میں خواتین کو شروع ہی سے ایسے حالات کا سامنا رہتا ہے جو ان کی مجموعی صلاحیتوں کو استعمال میں لانے کے راستے میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں۔ یہ رکاوٹیں خاص طور پر خواتین کو لیڈر شپ کا موقع فراہم کرنے کے سلسلے میں دیکھنے میں آتی ہیں۔
ویشاکھا ڈیسائی کے بقول اگر مرد اور خواتین ایک ہی طرح کے کام کریں تو جنوبی کوریا میں خواتین کو مردوں کی تنخواہوں کے صرف 51 فیصد اور جاپان میں 60 فیصد کے برابر ادائیگیاں کی جاتی ہیں۔ یہی فرق نیپال، بنگلہ دیش اور چین میں بھی بہت واضح ہے۔
ایشیا سوسائٹی مالی منافع کے بغیر کام کرنے والی ایک ایسی عالمگیر تنظیم ہے جس کا صدر دفتر نیو یارک میں ہے۔ یہ تنظیم تعلیمی، پالیسی اور کاروباری شعبوں میں ایشیا اور مغربی دنیا کے درمیان قریبی تعلقات کے فروغ کے لیے کام کرتی ہے۔
Ij/ aa/AP