1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خواجہ آصف کی نا اہلی، عالمی سطح پر کیا پیغام گیا؟

26 اپریل 2018

پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف کی نا اہلی کے حوالے سے پاکستان میں خارجہ امور کے ماہرین متفرق آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔ تاہم کئی ماہرین کا خیال ہے کہ اس فیصلے سے عالمی سطح پر کوئی اچھا پیغام نہیں گیا۔

https://p.dw.com/p/2wjv9
Sergej Lawrow mit pakistanischer Außenminister Khawaja Muhammad Asif
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Zemlianichenko

پاکستان کے سفارتی امور کے ممتاز ماہر اور سابق سفارت کار اقبال احمد خان نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ اس پیش رفت سے دنیا کو کوئی اچھا پیغام نہیں ملا۔ ان کا کہنا تھا، ’’ایک ایسا ملک جہاں سے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ نا اہل ہو چکے ہوں اور وزیر خزانہ بھی ایسے ہی مقدمات کی وجہ سے ملک سے باہر بیٹھا ہوا ہو، ایسے میں پاکستان سے اہم مذاکرات کرنے والے ملکوں کو اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ پاکستان کی طرف سے کی جانے والی کمٹ منٹس کا فالو اپ کیسے ہوگا۔‘‘

خواجہ آصف بھی نا اہل

اقبال احمد خان کے مطابق خواجہ آصف حال ہی میں چینی صدر سے مل کر آ ئے تھے، ’’دنیا میں تیزی سے تبدیلیاں آ رہی ہیں، طاقت کے مراکز بھی بدل رہے ہیں، روس اور چین کے ساتھ اہم بات چیت جاری ہے، خارجہ پالیسی کے کور ایشوز بشمول نیوکلر ایشو، مئسلہ کشمیر اور سی پیک کے منصوبے خارجہ امور کے بڑوں کی توجہ کے متقاضی ہیں، ان حالات میں کسی فیصلے سے دنیا کو یہ معلوم ہو کہ ہم پاکستان کی جس اہم شخصیت سے بات چیت کر رہے تھے وہ تو صادق اور امین ہی نہیں ہے۔ اس سے ملک کی کریڈبیلٹی متاثر ہوتی ہے، ایسی صورتحال میں ملک کے اندر پائے جانے والے عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال کا تاثر بھی ملتا ہے۔ بعض لوگ اس سے یہ تاثر بھی لے سکتے ہیں کہ پاکستان میں سیکورٹی اور فارن پالیسی کے فیصلے کہیں اور ہو رہے ہیں۔ عوام کے منتخب نمائندوں کی انتخابی احتساب سے گذرنے کے باوجود کوئی اہمیت نہیں ہے۔‘‘

اقبال احمد خان مزید کہتے ہیں کہ انتخابات کے بعد آئینی طور پر منتخب قیادت کی مسلسل تبدیلی خارجہ امور کے معاملات کو متاثر کرتی ہے اور کسی نئے آدمی کو خارجہ امور کو سمجھنے میں بھی وقت لگتا ہے۔ عام طور پر ایسی صورت حال میں خارجہ پالیسی کے امور تعطل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کے بقول اس اہم وقت پہ خارجہ امور میں سوچ کے واضح اور قیادت کے مستحکم ہونے کی ضرورت تھی۔ ’’ایک اچھی خارجہ پالیسی کی کامیابی کے ثمرات کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی انجینئیرنگ سے اجتناب کرتے ہوئے جمہوریت کے حقیقی تسلسل کو فروغ دیا جائے۔‘‘

دوسری جانب ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے سابق وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی نے بتایا کہ خواجہ آصف کے خلاف آنے والا فیصلہ ایک آئینی عدالت کا ہے، جسے تمام قانونی تقاضوں کو مدنظر رکھ کر ملکی قوانین کے مطابق سنایا گیا ہے۔ ان کے بقول اس سے خارجی سطح پر کوئی بحران پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ان کے بقول دنیا بھر میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ ایک آدمی کے جانے کے بعد دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے برازیل، جرمنی اور میکسیکو کے علاوہ ادھر بھارت میں بھی نرسہما راؤ اور اندرا گاندھی سمیت کئی سیاسی لیڈروں کو عدالتی کارروائی کے نتیجے میں اپنے عہدے چھوڑنے پڑے تھے۔

سردار آصف کے بقول دراصل ملکوں کے تعلقات ریاست سے ہوتے ہیں کسی انفرادی شخصیت سے نہیں، ’’اس کی ایک مثال پاکستان کے ساتھ دوست ملک چین کے تعلقات ہیں، جمہوری اور غیر جمہوری ادوار میں چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں کوئی فرق نہیں پڑا۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں پاکستان کے سابق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے تو اس دور حکومت کا ایک بڑا حصہ بغیر کسی وزیر خارجہ کے ہی گذارا ہے۔ ’’اگرچہ یہ ایک ایسی بات ہے جس سے فرق ضرور پڑتا ہے لیکن خواجہ آصف کے جانے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔‘‘

سردار آصف احمد علی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بڑے عرصے کے بعد ایک ’قابل اعتماد احتساب‘ شروع ہوا ہے۔ پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون سمیت سب پارٹیوں کے لوگ اس احتساب کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کے بقول ’خود احتسابی‘ کا یہ سلسلہ پاکستانی سیاسی نظام کے لیے بہت اچھا ہے۔ ’’دہشت گردی کے بعد اب ملک سے کرپشن ختم ہو رہی ہے، اس سے ملک میں شفافیت آئے گی، سامایہ داروں کے اعتماد میں اضافہ ہوجا اور بیرونی سرمایہ کاری بھی آئے گی۔‘‘

ادھر خواجہ آصف نے اپنی نا اہلی کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے آبائی شہر سیالکوٹ میں پی ٹی آئی کے کارکن جشن منا رہے ہیں لیکن سیالکوٹ میں نون لیگ سے ہمدردی رکھنے والے لوگوں کا خیال ہے کہ خواجہ آصف ’طاقت ور حلقوں کے خلاف کیے جانے والے مخصوص اظہار خیال‘ کی وجہ سے بھی اس حال کو پہنچے ہیں۔

پاکستانی سیاست: نواز شریف کی تاعمر نااہلی کے بعد ہو گا کیا؟