خواجہ سراؤں سے بھی شادی کی جا سکتی ہے، فتویٰ
27 جون 2016
تنظیمِ اتحادِ امت پاکستان نامی بریلوی تنظیم کے مطابق ایسے خواجہ سرا عام مرد اور عورتوں سے بھی شادی کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ تاہم وہ خواجہ سرا، جن میں مردانہ و زنانہ دونوں خصوصیات پائی جاتیں ہوں وہ ہرگز نکاح نہیں کر سکتے۔
فتوے میں مزید کہا گیا ہے کہ خواجہ سراؤں کی بھی نمازِ جنازہ اسی طرح ہی پڑھائی جانی جاہیے، جس طرح عام مسلمان مرد و خواتین کی پڑھائی جاتی ہے۔ فتوے کے مطابق خواجہ سراؤں کا جائیداد میں بھی حصہ ہوتا ہے اور جو والدین انہیں جائیداد سے محروم کر کے انہیں گھر سے نکال دیتے ہیں، ان کے خلاف حکومت کو قانونی کارروائی کرنی چاہیے۔ علماء نے کہا ہے کہ خواجہ سراؤں کی تضحیک کرنا، آوازیں کسنا، مذاق اڑانا یا اُنہیں حقیر سمھجنا شرعی طور پر جائز نہیں ہے۔
فتوے نے پاکستان کے سماجی حلقوں میں ایک دلچسپ بحث چھیڑ دی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس خبر کا خوب چرچا ہے۔ فیس بک پر کئی افراد نے اس خبر کے لنک کو اپ لوڈ کیا ہے۔ ٹوئٹر پر بھی کئی افراد نے اس پر دلچسپ تبصرے کئے ہیں۔ ایک تبصرے میں کہا کیا گیا کہ خواجہ سراؤں کے حوالے سے حال ہی میں افسوس ناک خبریں آتی رہیں ہیں لیکن یہ اب کچھ بہتر خبر ہے۔ ایک اور ٹوئیٹر صارف نے لکھا کہ فتویٰ پیچیدہ اور دلچسپ بھی ہے۔ ایک صارف کے مطابق ان کا کیا ہوگا جن میں نہ مردانہ اور نہ ہی زنانہ جسمانی خصوصیات ہیں۔
فتوے پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین علامہ طاہر اشرفی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’خواجہ سراؤں کے حوالے سے کوئی فتوی دینے سے پہلے بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے کیونکہ اس میں بہت سی پیچیدگیاں ہیں۔ کوئی عام سا فتوی اس سلسلے میں نہیں دیا جا سکتا بلکہ مسئلے کو کیس ٹو کیس بنیاد پر دیکھنا پڑے گا۔ تاہم انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ اگر کسی خواجہ سرا میں جسمانی طور پر مردانہ صفات ہیں تو وہ کسی ایسے خواجہ سرا سے شادی کر سکتا ہے، جس میں جسمانی طور پر زنانہ خصوصیات پائی جاتیں ہوں۔‘‘
پاکستانی سینیٹر تاج حیدر نے کہا، ’’ہمارے ہاں خواجہ سراؤں کے خلاف امتیازی سلوک بہت پرانا ہے اور یہ کئی صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ سماجی رویوں کو تبدیل ہونا چاہیے اور لوگوں کو اس حوالے سے اب شعور بھی آرہا ہے۔ خواجہ سراؤں کے مسائل کے حل کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ ان کے لئے تعلیم کے دروازے کھولے جائیں تاکہ وہ مختلف شعبوں میں شمولیت اختیار کر سکیں۔ جب وہ مختلف شعبوں میں شمولیت اختیار کریں گے تو ان کے سماجی مرتبے میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور آئے گا۔‘‘
لیکن خواجہ سراؤں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی الماس بوبی کا کہنا ہے کہ اس فتوے سے ان کے لوگوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، ’’شادی تو دور کی بات ہے۔ پہلے حکومت ہمارے بنیادی حقوق، تعلیم، صحت، روزگار اور گھر تو دے تاکہ ہمارے لوگوں کو ذلت و خواری نہ اٹھانہ پڑے، سڑکوں پر بھیک نہ مانگنا پڑے۔‘‘
اک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’سوال یہ ہے اس ملک میں عورتیں شادی کر کے کون سی خوش ہیں۔ آئے دن غربت کی وجہ سے مائیں دریاؤں میں چھلانگیں لگا رہی ہوتی ہیں۔ بھوک و افلاس کی وجہ سے خودکشیاں بڑھ رہی ہیں۔ کیا حکومت کی طرف سے اس رجحان کو روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ شادی کے حوالے سے فتویٰ خوش آئند ہے۔ اب جس کو پچوں کی خواہش نہ ہو وہ کر لے ہماری کمیونٹی کے افراد سے شادی۔ اداکار دلیپ کمار اور محمد علی نے بھی تو بغیر اولاد کے زندگی گزار دی۔ شاید شٰیخ رشیدکو بھی اولاد کی خواہش نہیں ہے۔ تو ایسے لوگوں کو آگے آنا چاہیے اور ہماری کمیونٹی کے افراد سے شادی کرنی چاہیے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’اگر کوئی ہم سے شادی کرے تو ہم عورتوں کے مقابلے میں گھر کو بہت بہتر انداز میں چلاتی ہیں۔ جھاڑو، برتن، صفائی ستھرائی، سب کچھ خواجہ سراؤں کو آتا ہے۔ وہ اچھی بیویوں کے طور پر کام کر سکتی ہیں۔‘‘