خود کُشیوں کو کیسے روکا جائے ؟
12 ستمبر 2014خود کُشی ایک ایسا موضوع ہے، جس کے بارے میں کم ہی بات کی جاتی ہے۔ اس بارے میں وہ لوگ بھی کم ہی بات کرتے ہیں، جن کے رشتہ دار یا دوست ایسا کر چکے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ موضوع ڈاکٹروں، سائیکو تھراپسٹس اور امدادی تنظیموں کے لیے بھی انتہائی مشکل موضوع ہے۔ اکثر اوقات وہ بھی اسے روکنے کے لیے ضروری اقدامات کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔
یورپ میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اہلکار ماتھیس موجین کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں خود کُشی کرنے کی وجوہات مختلف ہیں۔ ان کے مطابق، ’’دیہاتی علاقوں میں زیادہ تر لوگ غربت سے تنگ آ کر خود کُشیاں کرتے ہیں۔ جب ان کے پاس کچھ نہیں رہتا تو انہیں یہ بھی سمجھ نہیں آتی کہ وہ آگے زندگی میں کیا کریں۔ ایسے علاقوں میں اکثر لوگ کیڑے مار ادویات کھاتے ہیں اور خود کُشی کر لیتے ہیں۔‘‘
دنیا بھر میں خود کُشیوں کی شرح
رواں ماہ کے آغاز میں شائع ہونے والی ڈبلیو ایچ او کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ خود کُشیاں شمالی کوریا میں کی جاتی ہیں۔ وہاں ہر ایک لاکھ افراد میں سے تقریباﹰ چالیس افراد خود کُشی کر لیتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ معاملہ جنوبی کوریا میں بھی، وہاں یہ تعداد تقریباﹰ سینتیس افراد بنتی ہے۔ اسی طرح مشرقی یورپ اور روس میں بھی حالات پریشان کن ہیں۔
لوگ خود کشیاں کیوں کرتے ہیں ؟ اس کے پیچھے ثقافتی، سماجی، مذہبی اور اقتصادی عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق کئی ملکوں میں خود کُشی کرنا قانونی طور پر جائز ہے اور کئی میں ممنوع۔ لیکن اس کے باوجود حکومتوں کی طرف سے ممکنہ اقدامات سالانہ آٹھ لاکھ لوگوں کی جان بچا سکتے ہیں۔
ذہنی دباؤ اور تنہائی
15 سے29 برس کی عمر میں ہلاکت کی دوسری سب سے بڑی وجہ خود کُشی ہے جبکہ منشیات اور ٹریفک حادثات اس کے بعد آتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق 65 برس سے زائد عمر والے افراد میں خود کُشی کرنے کا رجحان اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ انہیں نہ صرف جسمانی بیماریوں کا سامنا ہوتا ہے بلکہ وہ شدید ذہنی دباؤ کا بھی شکار رہتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق ایسی عمر میں افراد تنہائی کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔خود کُشی کرنے والی ہر دوسری خاتون کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہوتی ہے۔ دوسری جانب عمر سے قطع نظر ذہنی دباؤ اور تنہائی خود کُشی کی بڑی وجوہات ہیں۔ پاکستان میں غربت کے ساتھ ساتھ نوجوانوں میں خود کُشی کی ایک بڑی وجہ ’محبت میں ناکامی‘ بھی ہے۔
توجہ اور شعور کی بیداری
خود کُشی روکنے کے لیے سب سے اہم اقدام یہ ہے کہ متاثرہ شخص میں شعور بیدار کیا جائے۔ ماتھیس موجین کہتے ہیں، ’’ متاثرہ شخص کو یہ احساس دلایا جائے کہ وہ تنہا نہیں ہے۔ اس کو یہ تاثر دیا جائے کہ تنہا ہو جانا اور زندگی سے تنگ آ جانا کوئی غیر فطری عمل بھی نہیں ہے بلکہ یہ زندگی کا حصہ ہے۔ ایسا کرنے کے لیے ایسے سینٹرز کا قیام ضروری ہے، جہاں ہنگامی فون کرتے ہوئے مدد حاصل کی جائے۔‘‘ ماتھیس موجین کے مطابق ایسے امدادی سینٹرز میں ایسے افراد ہونے چاہییں جو متاثرہ شخص کے ساتھ مل کر مسائل کا حل تلاش کریں۔ ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ متاثرہ شخص کی نظر میں جو مسئلہ ہے، اس کا کوئی حل نہ ہو۔
ہر سال دس ستمبر کو خود کشی کے خلاف عالمی دن بھی منایا جاتا ہے، جس کا مقصد عوام میں اس کی روک تھام میں مدد فراہم کرنے سے متعلق شعور اجاگر کرنا ہے۔ دفتروں، ڈاکٹروں، ہسپتالوں، امدادی تنظیموں اور شہریوں پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ متاثرہ افراد کی مدد کریں، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔