خوفناک نسل پرستانہ قتل نے جرمنی کو کیوں نہ بدلا
14 جون 2020افریقی ملک موزمبیق سے تعلق رکھنے والے انتالیس سالہ البیرٹو آڈریانو کو نیو نازیوں نے خوفناک انداز میں قتل کیا تھا۔ اس بہیمانہ قتل نے سارے جرمنی کو صدمے میں لے لیا تھا۔ اڈریانو کو اس وقت قتل کیا گیا تھا جب وہ اپنے ایک دوست کے اپارٹمنٹ پر فٹ بال میچ دیکھنے کے بعد اپنے گھر جا رہا تھا۔
اس کو تقریباً اندھیرے میں تین قاتلوں نے گھیر کر مکے اور ٹھوکریں مارنا شروع کر دیں، حتیٰ کہ وہ بے ہوش کر زمین پر گر پڑا۔ چودہ جون سن 2000 کو البیرٹو اڈریانو تین دن تک بے ہوش رہنے کے بعد سر میں لگنے والی اندرونی چوٹوں کی وجہ سے دم توڑ گیا۔
یہ بھی پڑھیے: کيا جرمن پوليس نسل پرست ہے؟
قتل کی یہ افسوسناک واردات جرمن وفاقی ریاست سیکسنی انہالٹ کے شہر ڈیساؤ میں ہوئی تھی۔
سابقہ مشرقی و مغربی جرمنی میں دیوارِ برلن کے انہدام اور دونوں ملکوں کے انضمام کے گیارہ برسوں بعد دائیں بازو کے انتہا پسندوں نے یہ پہلا قتل ڈیساؤ کے سٹی پارک (اسٹڈ پارک) میں کیا تھا۔ اس قتل کی مذمت کے لیے ڈیساؤ میں پانچ ہزار افراد نے مظاہرے میں شرکت کی تھی۔
’جرمنیت‘ کا مفہوم بدلنے کی کوشش
نائجیرین نژاد جرمن گلوکار آڈے اوڈوکویا المعروف آڈے بانٹو کے مطابق اس ظالمانہ قتل کے بعد خوف پھیل گیا تھا۔ اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے بانٹو کا کہنا ہے کہ یہ قتل اس لیے بھی اہمیت اختیار کر گیا تھا کیوں کہ اس وقت لوگ نئے ہزاریے کی خوشیاں منانے میں مصروف تھے کہ اس دوران ایک اور نسل پرستانہ ہلاکت ہوئی تھی۔
آڈے بانٹو اور دیگر افریقی نژاد جرمن گلوکاروں اس واقعے کو لوگوں کی یاد سے محو نہیں ہونے دینا چاہتے تھے۔ انہوں نے دیگر فنکار ساتھیوں کے تعاون سے نسل پرستی کے خلاف آگہی پیدا کرنے کا ایک پراجیکٹ 'برادرز کیپرز‘ شروع کیا تھا (جو فنکاروں کے دوسرے شہروں میں چلے جانے کے باعث کچھ عرصے بعد ہی ختم ہو گیا)۔
آڈے بانٹو اور ان کے ساتھیوں نے ایک نغمه بعنوان 'اڈریانو۔آخری انتباہ‘ بھی ریلیز کیا، جو ان دنوں جرمنی کے دس مقبول ترین گانوں کی فہرست میں بھی شامل ہو گیا تھا۔
اڈے اوڈوکویا کا کہنا ہے کہ جرمنی میں ایسا احساس ہوتا ہے کہ جرمن قومیت لینے کے بعد بھی رنگ و نسل کا فرق برقرار رہتا ہے۔ اس فنکار کا خیال ہے کہ 'اڈریانو۔ ایک انتباہ‘ نے جرمن لوگوں کی وسیع پیمانے پر توجہ حاصل کی تھی اور اس پر جرمن حلقوں میں شناخت کے معاملے پر بحث و تمحیص بھی جاری رہی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نسل پسندی کے خلاف پائے جانے والے جذبات کو ریاست پالیسی کی چھتری ملنا ضروری ہے۔
’جرمنی میں نسلی امتیاز کی جڑیں گہری ہیں‘
آڈے بانٹو کے گانے نے 'جرمن پن‘ کے موضوع پر بحث اور آگاہی تو پیدا کی لیکن دو دہائیوں بعد بھی جرمنی میں نسل پرستی کا خاتمہ نہیں ہو پایا۔
جرمنی کے وفاقی ادارے برائے انسدادِ نسلی امتیاز (ADS) نے اپنی سالانہ رپورٹ میں نسلی تعصب میں افزائش کے معاشرے پر سنگین نتائج سے خبردار کیا ہے۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ نسلی امتیاز کے واقعات میں سن 2019 کے دوران اس سے گزشتہ برس کی نسبت دس فیصد اضافہ ہوا اور ایسے واقعات کی تعداد ایک ہزار ایک سو چھہتر رہی۔
یہ بھی پڑھیے: امریکا میں نسل پرستی خوفناک ہے لیکن ہمیں پہلے اپنا گھر ٹھیک کرنا ہوگا: انگیلا میرکل
یہ تعداد سن 2015 کے پورے سال کے دوران رپورٹ کردہ نسل پرستی پر مبنی واقعات سے دو گنا بنتی ہے۔ یعنی 2015 کے مقابلے میں اب نسلی تعصب پر مبنی واقعے دوگنا ہو گئے ہیں۔
امتیازی رویوں کے انسداد کے لیے متحرک اماڈیو انٹونیو فاؤنڈیشن کی سربراہ انیتا کہانے کے مطابق یہ حکومتی اعداد و شمار بھی جرمنی میں نسل پرستانہ واقعات کی حقیقی سنگینی کی عکاسی نہیں کرتے۔
انیتا کے مطابق یہ بات واضح ہے کہ ایسے رویوں کے انسداد کے ریاستی ادارے مناسب انداز میں فرائض سرانجام نہیں دے رہے۔ انیتا کہانے نے نسل پرستی سے متاثر ہونے والے افراد کی جانب سے شکایات کے اندراج کو مزید آسان بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
’صرف الفاظ نہیں، عملی اقدامات کی ضرورت ہے‘
جرمن ریاست شلیسوگ ہولشٹائن کی پارلیمنٹ کی نائب صدر امیناتا طورے کا کہنا ہے کہ نسل پسندی کے حوالے سے رونما ہونے والے ہر واقعے پر مناسب کارروائی ضروری ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب بھی اس بابت بات کی جائے تو پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا جرمنی میں نسل پرستی موجود ہے؟ اور یہ سوال ظاہر کرتا ہے کہ لوگ آگاہ نہیں ہیں کہ بے شمار افراد اس ملک میں اس کا شکار ہیں۔
ع ح/ ش ح (الیکس میتھیوز)