خیبر پختونخوا: تعلیم، صحت اور توانائی کی ایمرجنسی
18 جون 2013اس بجٹ کو تین حصوں یعنی فلاحی،ترقیاتی اور انتظامی شعبوں میں تقسیم کرتے ہوئے مختص رقوم میں اضافہ کیا گیا ہے تاہم خواتین کی فلاح و بہبود کے شعبے کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
خیبر پختنوخوا میں اگلے مالی سال کے بجٹ میں صوبے کی حدود میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت زمینی یا فضائی راستے سے سامان کی ترسیل پر ٹیکس نافذ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ دوسری جانب افغانستان میں قیام پذیر نیٹو افواج کو اشیائے ضرورت سپلائی کرنے والی گاڑیوں سے کوئی صوبائی ٹیکس نہ لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومت نیٹو کی سپلائی کو غیر قانونی سمجھتی ہے اور وفاق سے اسے بند کرنے کے لیے بات کی جائے گی۔ صوبائی حکومت کے مطابق اس پر ٹیکس عائد کرنے کا مطلب یہی ہوگا کہ یہ سپلائی قانونی ہے۔
صوبائی وزیر خزانہ سراج الحق نے سال دو ہزار تیرہ و چَودہ کے بجٹ کو ٹیکس فری بجٹ قرار دیا ہے۔ بجٹ دستاویزات کی رُو سے خدمات پر ٹیکس وصول کرنے کے لیے ایک ریوینو اتھارٹی کے قیام کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا:”بجٹ کا کُل حجم 344 ارب روپے ہے اور یہ کہ اس میں سے زیادہ تر رقم تعلیم، صحت، توانائی اور امن و امان کی صورتحال میں بہتری لانے کے لیے مختص کی گئی ہے۔ اس بجٹ میں تعلیم کے شعبے کے لیے 66 ارب روپے سے زیادہ رقم مختص کی گئی ہے اور کوشش کی ہے کہ عام اور غریب آدمی کو ریلیف پہنچائیں۔ چار لاکھ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ بھی کیا اور اب ان سے نظام میں بہتری لانے کے لیے توقعات بھی وابستہ کی ہیں۔ بے روزگار ہُنر مند نوجوانوں کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق تین سال کے لیے قرضے دیں گے تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکیں۔“
11مئی کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کو خیبر پختونخوا میں اکثریت حاصل ہوئی تاہم وہ اکیلے حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھی، جس پر اس نے جماعت اسلامی کو ساتھ ملایا۔ اتحاد کے وقت ان کے ساتھ وزارتوں کی تقسیم کا فارمولا بھی طے ہوا، جس کی رُو سے تعلیم کی وزارت بھی جماعت اسلامی کو دی گئی تاہم چند روز بعد پی ٹی آئی نے وزارت تعلیم واپس مانگ لی، جو صوبائی کابینہ کی حلف برداری میں تاخیر کا سبب بنی۔
دونوں جماعتوں نے عوام کو تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے کو اپنی ترجیحات میں اولین اہمیت دی ہے۔ آئندہ مالی سال کے صوبائی بجٹ میں تعلیم کے لیے 66 ارب روپے سے زیادہ جبکہ صحت کے شعبے کے لیے 22 ارب روپے سے زیادہ رقم مختص کی گئی ہے، جو رواں مالی سال کے مقابلے میں 12ارب روپے زیادہ ہے۔
تعلیم کے شعبے میں انقلاب لانے کے دعووں کے باوجود اس شعبے کے لیے 66 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، جو سال رواں کے مقابلے میں 6 ارب روپے زیادہ ہیں۔
اسی طرح امن و امان کے قیام کے حوالے سے پولیس کے لیے مختص بجٹ میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متاثرہ صوبے خیبر پختونخوا کو وفاقی حکومت کی جانب سے 23 ارب روپے ملیں گے، جن میں پولیس کے لیے مختص فنڈز میں ایک ارب روپے کے اضافے کا اعلان کیا گیا ہے۔
آئندہ مالی سال کے دوران پانچ سو ملین ر وپے کی لاگت سے کم آمدنی کے حامل بیس فیصد شہریوں کے لئے ہیلتھ انشورنس سکیم کے ذریعے کینسر، ایڈز، امراض گردہ اور امراض جگر کا علاج مفت کیا جائے گا۔ صوبے میں ذیابیطس جیسی مہلک بیماری میں اضافے کے پیش نظر غریب اور نادار مریضوں کے بر وقت اور صحیح علاج سمیت ذیابیطس پر قابو پانے کے لئے غریب اورنادار مریضوں کو انسولین کی مفت فراہمی کا اعلان کیا گیا ہے اور اس کے لئے ” انسولین برائے زندگی“ کے نام سے ایک خصوصی پروگرام شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے، جس کے لیے پچیس ملین روپے فراہم کرنے کی تجویز ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا نے تعلیم کو ترجیح دینے کا عزم ظاہر کیا ہے تاہم پنجاب نے دیگر کے مقابلے میں تعلیمی بجٹ میں اضافہ کیا ہے، جو صوبہ خیبر پختونخوا کے 19فیصد کے مقابلے میں کل بجٹ کا 26 فیصد بنتا ہے۔
رپورٹ: فرید اللہ خان، پشاور
ادارت: امجد علی