داعش ترکی کی دہلیز پر، ترک جنگی طیارے سرحد پر
23 جولائی 2015ترک صوبے کیلیس کے گورنر کے مطابق یہ حملہ اُس شامی علاقے سے کیا گیا، جو جہادی تنظیم اسلامک اسٹیٹ یا داعش کے کنٹرول میں ہے۔ ترک فوجی حکام نے جوابی کارروائی کے دوران ایک عسکریت پسند کے ہلاک اور اس شدت پسند گروپ کی تین گاڑیاں تباہ کر دیے جانے کا دعویٰ کیا ہے۔
ترک فوج کی ویب سائٹ پر داعش یا اسلامک اسٹیٹ اور ترک فوجیوں کے درمیان ہونے والی جھڑپ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس واقعے میں ایک ترک فوجی ہلاک اور دو زخمی ہوئے۔ بتایا گیا ہے کہ صوبہ کیلیس میں ہلاک ہونے والا فوجی ایک نان کمیشنڈ آفیسر تھا جبکہ زخمیوں میں دو حوالدار شامل ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ زخمی فوجیوں کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
ایک ترک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس حملے کے ایک روز پہلے ہی ترکی نے صوبہ کیلیس کی سرحد پر اسپیشل فورسز یونٹ تعینات کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
ترکی نے مبینہ طور پر داعش کا ساتھ دینے والے شہریوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رکھا ہوا ہے اور شام کے ساتھ ترک سرحد کے قریب کردوں کے ایک اجلاس میں ہونے والے خودکش حملے کے بعد اس عمل کو تیز تر کر دیا گیا ہے۔ چند روز پہلے ہونے والے داعش کے اس حملے میں کم از کم بتیس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ترکی گزشتہ چھ ماہ کے دوران داعش سے تعلق رکھنے کے الزام میں پانچ سو سے زائد افراد کو گرفتار کر چکا ہے۔ اسی طرح رواں ماہ ایسے اکیس افراد کو بھی گرفتار کر لیا گیا، جو مبینہ طور پر داعش کے لیے ترکی سے شدت پسند بھرتی کر رہے تھے۔
دوسری جانب آج ہی ترکی میں کرد آبادی والے شہر دیارباکر میں ایک حملے میں ایک پولیس افسر کو ہلاک جبکہ دوسرے کو زخمی کر دیا گیا۔ کردوں کے ایک اجتماع میں داعش کے حملے کے بعد سے ترک سکیورٹی فورسز کے خلاف بھی حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ روز رائس العین میں بھی حملہ کرتے ہوئے دو ترک پولیس افسران کو ہلاک کر دیا گیا تھا، جس کی ذمہ داری کالعدم تنظیم کردستان ورکرز پارٹی ( پی کے کے) نے قبول کر لی تھی۔ کردستان ورکرز پارٹی کے عسکری بازو کا کہنا تھا کہ ان پولیس اہلکاروں کو حالیہ خودکش حملے کے بدلے میں ہلاک کیا گیا۔
سن دوہزار تیرہ میں ترکی اور کرد علیحدگی پسندوں کی جماعت کردستان ورکرز پارٹی نے آپس میں فائر بندی کا اعلان کرتے ہوئے اس بات پر بھی اتفاق کیا تھا کہ یہ تنظیم ترک ریاستی علاقے سے اپنے مسلح جنگجوؤں کو واپس بلا لے گی۔ کردستان ورکرز پارٹی کی طرف سے ترکی میں مسلح جدوجہد کا آغاز 1984ء میں کیا گیا تھا۔ اس دوران ہزاروں پرتشدد واقعات میں اب تک پینتالیس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔