1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

داعش سنی خواتین پر جنسی حملوں میں بھی ملوث، ہیومن رائٹس واچ

عاطف بلوچ، روئٹرز
20 فروری 2017

ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے ایزدی خواتین پر تشدد اور ان کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے واقعات تو دستاویزی طور پر موجود ہیں، مگر یہ تنظیم سنی خواتین کے ساتھ بھی یہی سلوک کرتی رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/2Xu6l
Jesdidin Jeside Frau Flucht vor IS
تصویر: Getty Images/AFP/S.Hamed

پیر کے روز انسانی حقوق کی اس عالمی تنظیم کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے عسکریت پسند عرب خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیوں اور ان پر تشدد جیسے واقعات میں ملوث ہیں۔

اس تنظیم نے اس حوالے سے جہادیوں کے ہاتھوں ان سنی عرب خواتین کے اغوا، مار پیٹ، جبری شادیوں اور جنسی استحصال کی بابت دستاویزات مرتب کی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ جہادیوں نے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے زیرقبضہ علاقے حویجہ سے فرار ہونے کی کوشش کرنے والی سنی عرب خواتین کو تشدد اور جنسی استحصال کا نشانہ بنایا۔

اس تنظیم نے ایک 26 سالہ سنی عرب لڑکی حنان کی کہانی شائع کی ہے، جس کا شوہر حویجہ سے فرار ہو گیا تھا، تاہم اس لڑکی کو جہادیوں نے حراست میں لے لیا، اور پھر حویجہ کے علاقے سے فرار ہونے کی کوشش کرنے والی دیگر خواتین کے ساتھ ایک یرغمالی مرکز میں رکھا۔ ان جہادیوں نے اس خاتون سے کہا کہ اس کے شوہر کے فرار ہونے کی وجہ سے وہ بھی ’دائرہ اسلام سے خارج‘ ہو چکی ہے اور اس لیے اسے کسی مقامی جہادی رہنما سے شادی کرنا ہو گی۔

Propagandabild IS-Kämpfer ARCHIV
اس سے قبل بھی جہادیوں کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالیوں کی رپورٹیں سامنے آتی رہیں ہیںتصویر: picture-alliance/abaca/Yaghobzadeh Rafael

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اس لڑکی کی جانب سے انکار پر اسے پلاسٹک کی تاروں کے ساتھ پیٹا گیا اور اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ حنان کے مطابق ایک جہادی قریب ایک ماہ تک روزانہ اسے اس کے بچوں کے سامنے جنسی زیادتی کا نشانہ بناتا رہا۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق عالمی سطح پر اس واقعے پر توجہ نہیں دی گئی، جب کہ درست اقدامات کے ذریعے اسی تشدد کی شکار متعدد دیگر خواتین کو بچایا جا سکتا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی ڈپٹی ڈائریکٹر برائے مشرق وسطیٰ لاما فقیہ کے مطابق، ’’اسلامک اسٹیٹ کے زیرقبضہ علاقوں میں سنی عرب خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کو کم توجہ حاصل ہوتی ہے۔‘‘

فقیہ نے مزید کہا، ’’ہمیں امید ہے کہ بین الاقوامی برادری اور مقامی حکام متاثرین کے اس گروپ کو بھی وہ تمام مدد بہم پہنچائیں گے، جن کی یہ متقاضی ہے۔‘‘