داعش کے خلاف ایک ہزار سے زائد علماء کا فتویٰ
9 ستمبر 2015یہ پہلا موقع ہے کہ مدارس، مساجد اور اسلامی گروپوں سے تعلق رکھنے والے علماء کی اتنی بڑی تعداد نے مشرق وُسطیٰ میں قتل وغارت کرنے والی مسلح تحریک کی عوامی سطح پر مذمت کی ہے۔ یہ فتویٰ ممبئی سے تعلق رکھنے والے عالم دین منظر حسن خان اشرفی مصباحی کی طرف سے کمیونٹی رہنماؤں کی طرف سے پوچھے گئے اس سوال کے جواب میں جاری کیا گیا کہ کیا اسلامک اسٹیٹ کے اقدامات اسلامی طریقہ کار سے مطابقت رکھتے ہیں۔
یہ سوال پوچھنے والے عبدالرحمان انجاریا نے خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا، ’’اس فتوے میں کہا گیا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ کے اقدامات غیر انسانی اور غیر اسلامی ہیں، کیونکہ یہ معصوم لوگوں، خواتین اور بچوں کو قتل کرتے ہیں اور یہ کہ اسلامی ریاست کے قانون کے نفاذ کا دعویٰ بے بنیاد ہے۔‘‘
انجاریا کے مطابق گزشتہ تین ماہ کے دوران اس فتویٰ کی توثیق بھارت کی مختلف مساجد، مدارس اور مزارات کے 1070 سربراہوں کی طرف سے کی جا چکی ہے اور اب اسے توثیق کے لیے اقوام متحدہ اور 51 دیگر ممالک کو بھیجا جائے گا: ’’یہ دنیا کے امن کے لیے ایک بڑا پیغام ہے۔‘‘
اس فتوی کا ایک مقصد اسلامک اسٹیٹ کی طرف سے بھارت میں اپنا اثر ورسوخ بڑھانے اور لوگوں کو بھرتی کرنے کی کوششوں کا راستہ روکنا بھی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کی تیسری سب سے بڑی آبادی موجود ہے۔ ڈی پی اے کے مطابق بھارت میں 170 ملین سے زائد مسلمان آباد ہیں۔ بھارت کی کُل 1.2 بلین کی آبادی میں مسلمانوں کی شرح 14.2 فیصد بنتی ہے۔
بھارت کی وزارت داخلہ کے حکام کے مطابق 17 بھارتی شہری اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ شامل ہو چکے ہیں۔ تاہم یہ تعداد یورپ اور دیگر ممالک سے جا کر اسلامک اسٹیٹ میں شامل ہونے والے لوگوں کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔
انجاریا کے مطابق، ’’اسلامک اسٹیٹ اسلام کی غلط تعبیر کر رہا ہے۔۔۔ بھارت بھر کے مسلمان رہنما اپنے پیروکاروں تک اس فتوے کا پیغام پہنچائیں گے اور وضاحت کریں گے کہ اسلام کو نقصان پہنچانے والے اس گروپ کے بارے میں آگاہ کیا جائے گا۔‘‘