دبئی: خون پسینہ‘عیش اور کیش بھی
18 جولائی 2008مزدوروں کے لئے دبئی ایک تھکا دینے والا ملک ہے۔ لیکن یہ تصویر کا ایک رُخ ہے۔
دوسرا رُخ عیش و آرام کی کہانی ہے۔ شراب کی بوتلیں ٹھنڈی ہونے کے لئے برف کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں پڑی ہیں۔ ہاتھوں میں لئے ہوئے سگار‘ یہاں سے گُزرنے والی حسین لڑکیوں کے جدید ڈیزائن کے جوتوں کی ایڑیوں سے موٹے ہیں۔ یورپ سے منگائے گئے سفید صوفے پر ایک عرب نوجوان اپنی دو خواتین دوستوں کے ساتھ مست ہے۔ اور پاس ہی لندن سے آیا ہوا ایک تاجر گول صوفے پر بیٹھا ہے۔ یہ دبئی کے ایک آرام دہ ہوٹل کا بار نمبر چوالیس ہے۔
مقامی عرب لوگوں کے علاوہ عیش وآرام صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو یہاں پرتعطیلات منانے آتے ہیں۔ وہ بہترین ریستورانوں میں کھانا کھاتے ہیں، تھائی مساج سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور بڑی بڑی اور آرام دہ اے۔ سی گاڑیوں میں بیٹھ کر صحرا کی سیر کرتے ہیں۔
دبئی میں کام کرنے والوں کی بڑی تعداد بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے افراد پر مشتمل ہے جو کہ ماہانہ سات سو درہم کمانے کے لئے دن رات ایک کردیتے ہیں۔ یہ سب لوگ آنکھوں میں بڑے بڑے خواب سجا کر اس خلیجی ریاست کا رخ کرتے ہیں۔
دبئی میں رہنے والے ایک بھارتی کہتے ہیں: "ہم جیسے لوگ یہاں بچت کے لئے نہیں بلکہ اپنےاور اپنی فیملیز کے لئے دو وقت کی روٹی کمانے کے لئے آتے ہیں"۔
دبئی کی نوے فیصد آبادی غیر ملکیوں پر مشتمل ہے۔ متحدہ عرب امارات کی اس ریاست میں ایک طویل عرصے تک تین موضوعات پر کھل کر بات نہیں کی گئی۔ ایک یہ کہ اونٹ ریس میں سمگل شدہ چھوٹے بچوں کا استعمال، دوسرا جسم فروشی‘ اور تیسرا یہاں کام کرنے والے ان مزدوروں کے حالات جو کہ ماہانہ ایک سو ڈالر گھر بھیجنے اور ویزے کی مدت بڑھانے کی خاطر سارا دن تپتی ہوئی دھوپ اور صحراٴوں میں خون پسینا ایک کرتے ہیں۔