دلائی لاما وائٹ ہاؤس میں، صدر اوباما سے ملاقات
18 فروری 2010مشتعل ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ دلائی لاما امریکی صدر اوباما سے ملاقات کے لئے امریکہ پہنچ گئے ہیں۔ چین کی اشتراکی حکومت شور مچا رہی ہے۔ بیجنگ کو غصہ دراصل دو نازک معاملات سے متعلق واشنگٹن کے رویے پر ہے۔ تائیوان اور تبت۔ چینی حکام کا صدر اوباما سے مطالبہ تھا کہ وہ تبتیوں کے روحانی پیشواء دلائی لاما سے نہ ملیں۔ بیجنگ نے کھلی دھمکی دی تھی کہ یہ ملاقات چین اور امریکہ کے مابین پائے جانے والے حساس تعلقات پرمنفی اثرات مرتب کرے گی۔
واشنگٹن اور بیجنگ کے مابین موجودہ کشیدگی دراصل ایک نئے ’ورلڈ آڈر‘ کے خدوخال کے بارے میں دونوں کے نقظہ نگاہ کے سبب پائی جاتی ہے۔ چین ایک جارحانہ سُپر پاورکی حیثیت سے خطرناک حد تک عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں کا موضوع ہے۔ تاہم یہ خوف کسی حد مبالغہ آرائی پر مبنی ہے۔ دراصل یہ معاملہ ہے دو بڑی طاقتوں کے مابین ایک لطیف متوازن ’گیم آف پاور‘ کا۔ اس کھیل کو دونوں فریق جیت سکتے ہیں اگر یہ پُرامن رہتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا مظاہرہ کریں۔
بحر الکاہل کے دونوں طرف اس قسم کی گرما گرم دھمکیوں اور ٹھنڈے دل و دماغ اور عملیت پسندانہ رویے کے درمیان ایک توازن، 70 کے عشرے، یعنی ماؤ اور نکسن عہد سے ہے قائم رکھا جاتا رہا ہے۔ ہر تھوڑے دنوں بعد چین امریکہ تعلقات میں ایک ابُال آتا ہے تاہم جلد ہی یہ ’بزنس ایز یوژول ‘ یا معمول کی بات بن جاتی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ امریکہ چینی مصنوعات کی کھپت کی سب سے بڑی منڈی ہے اور چین کے بینک واشنگٹن کےسب سے بڑے ساہوکار۔ مختصراً یہ کہ دونوں ممالک کا ایک دوسرے پر اقتصادی اور تجارتی انحصار اتنا زیادہ ہے کہ نا تو امریکہ نا ہی چین ایک دوسرے کے ساتھ سنجیدہ اختلافات رکھ سکتے ہیں۔ چین موجودہ عالمی اقتصادی بحران کے وسیع تر منفی اثرات سے محفوظ رہا، جس کے سبب چین اتنا طاقت ور ہو گیا ہے جتنا یہ قدیم وسطی بادشاہت کے دور میں بھی نہیں تھا۔
چین کے قومیت پرستوں کا سیدھا یہ خیال ہے کہ کسی بھی مغربی حکومت نے اب تک تبت کی آزادی کی حمایت نہیں کی ہے۔ خود دلائی لاما نے بھی ایسا نہیں کیا ہے، بیجنگ حکومت کی طرف سے تبت کی آزادی کے مطالبے کو خود دلائی لاما کے مُنہ میں ڈالنے کے عمل کے باوجود۔ اگر چین امریکی سرکاری بونڈز کی فروخت کے ذریعے امریکہ کو سزا دینا چاہے تو اُسے قرضوں کے حصول میں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہوگا اور اگر چین کی کمیونسٹ پارٹی واقعی اپنی دھمکیوں کے مطابق، امریکی کمپنیوں کا بائیکاٹ کرتی ہے تو تنیجہ یہ ہوگا کہ چین کے ہوائی جہازوں میں سے آدھے سے زیادہ رن وے پر ہی کھڑے نظر آئیں گے کیونکہ ’بوئنگ ‘ کے اضافی پُرزوں کے بغیر چین میں کچھ بھی پرواز نہیں کرسکتا۔
تبصرہ: آڈری اینے والٹرس ڈورف
تحریر: کشور مصطفیٰ
ادارت: عدنان اسحاق