دلائی لامہ کے حوالے سے بھارت کے مؤقف میں تبدیلی؟
2 مارچ 2018اس غیر معمولی پیش رفت سے پیدا تنازع کے بعد بھارت نے صورت حال کو بگڑنے سے بچانے کے لئے آناً فاناً قدم اٹھاتے ہوئے اعلان کیا کہ تبت کے حوالے سے اس کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے اس تناظر میں ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا،’’دلائی لامہ کے حوالے سے بھارت کا موقف بالکل واضح ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ قابل احترام دلائی لامہ بھارت کے لوگوں کے لئے ہمیشہ محترم اور قابل عزت ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔ انہیں بھارت میں اپنی ہر طرح کی مذہبی سرگرمیاں انجام دینے کی پوری آزادی ہے۔‘‘
دراصل یہ پورا تنازعہ اُس وقت پیدا ہوا جب مؤقر انگلش روزنامے ’انڈین ایکسپریس‘ نے ایک رپورٹ شائع کی ۔ اس رپورٹ کے مطابق وفاقی کابینہ سکریٹری پی کے مشرا نے تمام محکموں کے اعلی افسران کو ایک تحریر بھیج کر ہدایت دی ہے کہ دلائی لامہ کی جلاوطنی کے ساٹھ برس مکمل ہونے کی مناسبت سے منعقد ہونے والی تقریبات میں رہنماؤں اور حکومتی افسران کو شامل نہ ہونے کا حکم دیا جائے۔ ہدایت نامے میں مزید کہا گیا تھا کہ حکم عدولی کرنے والے افسران کے خلاف سخت کارروائی کی جاسکتی ہے۔
یہ ہدایت نامہ چین میں بھارت کے سابق سفیر اور موجودہ خارجہ سکریٹری وجے گوکھلے کے اس خط کی بنیاد پر جاری کیا گیا ،جس میں گوکھلے نے تمام وزارتوں اور حکومتی محکموں کے علاوہ صوبائی حکومتوں کو بھی یہ ہدایت جاری کرنے کی درخواست کی تھی کہ دلائی لامہ کے حوالے سے کسی بھی تقریب کا دعوت نامہ قبول نہ کیا جائے۔
اخبار کے مطابق گوکھلے نے کہا تھا کہ چونکہ بھار ت اور چین کے تعلقات ان دونوں حسّاس دور سے گذر رہے ہیں اور دونوں ملک باہمی رشتوں کو بہتر بنانے کی کوشش کررہے ہیں اس لئے اس طرح کا کوئی بھی قدم سفارتی کوششوں پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔
بھارت اور چین کے درمیان کئی باہمی تنازعات ہیں۔ دونوں کے درمیان 1962میں جنگ بھی ہوچکی ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین 3488 کلومیٹر طویل حقیقی کنٹرول لائن پر کشیدگی کے علاوہ کئی دیگر تنازعات ہیں۔ بھارت کو چین پاکستان اقتصاد ی کوریڈور پر اعتراض ہے۔ بھارت کا الزام ہے کہ چین جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کو اقو ام متحدہ کی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کی بھارت کی کوششوں نیز نیوکلیئر سپلائر گروپ میں اس کی شمولیت کی راہ میں مسلسل رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ تبت کا مسئلہ بھی بھارت چین تعلقات میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ تبت کے حوالے سے چین کا موقف کافی سخت ہے ۔ وہ دلائی لامہ کو ایک خطرناک دہشت گرد قرا ردیتا ہے۔
دوسری طرف بھارت تبتیوں کے تئیں مسلسل ہمدردانہ پالیسی پر عمل پیرا رہا ہے۔ وہ تبت کو ایک خودمختارخطے کے طورپر تسلیم کرنے کے اپنے موقف پر قائم ہے۔ ساٹھ سال قبل کمیونسٹ حکومت کے خلاف ناکام بغاوت کے بعد دلائی لامہ اپنے اسّی ہزارحامیوں کے ساتھ تبت سے فرار ہوئے تو بھارت نے انہیں پناہ دی تھی۔
اس وقت بھارت کے دھرمشالہ نامی مقام پر تبتیوں کی جلاوطن حکومت کا سکریٹریٹ ہے ۔دلائی لامہ بھی وہیں رہتے ہیں۔جلاوطنی کی زندگی گذارنے والے تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزار تبتیوں میں سے ایک لاکھ سے زائد بھارت کے مختلف حصوں میں مقیم ہیں۔
دلائی لامہ اپنی جلاوطنی کے ساٹھ سال مکمل ہونے پر قومی دارالحُکومت میں یکم اپریل کو ’تھینک یو انڈیا‘ کے نام سے ایک بڑا پروگرام کرنے جا رہے ہیں، جس میں وہ اہم بھارتی رہنماؤں کو مدعوکرنے والے ہیں۔تاہم کابینہ سکریٹری کے ہدایت نامہ کے بعد اس پروگرام پر اثر پڑنا یقینی ہے۔
یہاں تجزیہ کار مودی حکومت کے اس قدم کو دلائی لامہ کے حوالے سے بھارت کے موقف میں واضح تبدیلی قرا ردے رہے ہیں۔ معروف تھنک ٹینک سینٹر فار پالیسی ریسرچ میں اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے پروفیسر برہم چیلانی نے بھارت کے مؤقف کو’افسوسناک ‘ قرار دیا ۔ برہم چیلانی نے ٹوئٹ کرکے کہا،’’چین کے ذریعہ برہم پتر اور ستلج ندیوں کے پانی کے متعلق اعدادوشمارنہیں بتانے اور تبت میں ہندووں کے دو متبرک مقامات تک عقیدت مندوں کی رسائی روک دینے کے باوجودبھارت باہمی معاہدوں کی خلاف ورزی کرنے پر چین کے خلاف کوئی احتجاج نہیں کرسکا اور اب یہ نیا معاملہ ہے۔ بھارت بالکل برعکس سمت میں جارہا ہے۔‘‘