دنیا بھر میں صاف پانی کی بڑھتی مانگ
ہر سال اگست کے مہینے میں دنیا بھر سے آبی امور کے ماہرین پانی کے عالمی ہفتے کے موقع پر سٹاک ہولم میں جمع ہوتے ہیں۔ پانی تک آسان رسائی انسانی زندگی کے لیے بنیادی اہمیت رکھتی ہے لیکن دنیا میں ہر جگہ یہ سہولت میسر نہیں ہے۔
پانی تو بہت لیکن پینے کو کم
ہماری بقا کا انحصار پانی پر ہے۔ زمین کی سطح کا ستّر فیصد سے زیادہ حصہ پانی سے ڈھکا ہوا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پینے کا صاف پانی بھی بے حد و حساب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زمین پر موجود 1.4 ارب کیوبک میٹر پانی میں سے صرف 2.5 فیصد پانی پینے کے قابل ہے۔ پوری دنیا میں میٹھے پانی کے ذخائر میں سے صرف 0.3 فیصد ایسے ہیں، جن تک دریاؤں اور جھیلوں کے ذریعے آسانی سے رسائی ہو سکتی ہے۔
زیادہ انسانوں کو زیادہ پانی کی ضرورت
1950ء سے دنیا بھر میں پانی کی طلب میں تقریباً چالیس فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے نتیجے میں یہ طلب اور بڑھتی جائے گی۔ حد سے زیادہ استعمال اور حد سے زیادہ آلودگی کے نتیجے میں میٹھے پانی کے ذخائر مسلسل کم ہوتے چلے جائیں گے۔ خطِ اُستوا سے جنوب کی جانب واقع ممالک کو پانی کی قلت کا زیادہ شدت کے ساتھ سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
امیزون کے باوجود پانی ندارد
برازیل جیسے ممالک میں بھی، جہاں دریائے امیزون کی صورت میں میٹھے پانی کے سب سے بڑے ذخیرے کا حامل دریا بہتا ہے، پانی کی قلت پائی جاتی ہے۔ امیزون کے گھنے جنگلات کو کاٹا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے براعظم جنوبی امریکا میں موسم تبدیل ہو رہے ہیں اور ان جنگلات سے ہَٹ کر باقی ملک میں بارشیں ہونا کم ہو گئی ہیں۔
صدی کی سب سے بڑی خشک سالی
2015ء میں کم بارشیں ہونے کے باعث برازیل کو گزشتہ اَسّی برسوں کی شدید ترین خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا۔ پوری گرمیاں آسمان سے ایک بھی قطرہ زمین پر نہیں آیا۔ بڑے آبی ذخائر خالی رہے۔ شہر ساؤ پاؤلو کے باسیوں کو کئی کئی دن پانی کے بغیر گزارنا پڑے۔ اس کے برعکس پھل پیدا کرنے والے بڑے بڑے فارموں کو بدستور کافی مقدار میں پانی فراہم کیا جاتا رہا۔
زیادہ پانی سے تیار ہونے والی خوراک
یورپ میں ایک بڑا مسئلہ وہ پودے ہیں، جنہیں زیادہ پانی درکار ہوتا ہے۔ خاص طور پر اسپین میں تقریباً تیس ہزار ہیکٹر رقبے پر پورے یورپ کے لیے پھل اور سبزیاں کاشت کی جا رہی ہیں۔ بار بار غیر قانونی کنویں کھودے جاتے ہیں، جو پھر سوکھ جاتے ہیں یا اُن سے کھارا پانی نکلنے لگتا ہے۔ زمین کی سطح کے نیچے موجود پانی کی صفائی اتنی مہنگی ہے کہ اُس کے لیے لازمی طور پر حکومتی مدد لینا پڑتی ہے۔
ایک کلوگرام گوشت، پندرہ ہزار چار سو لیٹر پانی درکار
سے بھی زیادہ پانی گائے کے گوشت کے لیے درکار ہوتا ہے۔ ایک کلوگرام گوشت کے لیے پندرہ ہزار چار سو لیٹر پانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ پانی گائیوں کے لیے چارہ کاشت کرنے میں استعمال ہوتا ہے۔ چین جیسے ملکوں میں معیارِ زندگی بڑھنے سے خیال کیا جا رہا ہے کہ وہاں بھی گوشت کی مانگ بڑھے گی اور یوں وہاں بھی آنے والے برسوں میں پانی کی مانگ میں اضافہ ہو جائے گا۔
چین کے پانی کے مسائل
آبادی کے اعتبار سے دنیا کے سب سے بڑے ملک چین کو پانی کے حوالے سے شدید مسائل کا سامنا ہے۔ شمالی چین کے کئی ایک صوبوں میں تو فی کس دستیاب پانی کی مقدار مشرقی وُسطیٰ کے صحرائی علاقوں سے بھی کم ہے۔ اسی لیے حکومت بڑی بڑی نہروں کے ذریعے میٹھا پانی جنوب سے شمال کی طرف لے جا رہی ہے۔ چین میں اَسّی فیصد زیر زمین پانی آلودہ بتایا جاتا ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پانی کے بڑھتے مسائل
میں بھی آبی مسائل کم ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ جرمن شہر پوٹسڈام میں موسمیاتی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والے ادارے پی آئی کے نے اندازہ لگایا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے چالیس فیصد زیادہ انسانوں کو پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا، خصوصاً جنوبی چین، امریکا کے جنوبی علاقوں، مشرقِ وُسطیٰ اور بحیرہٴ روم کے آس پاس واقع ممالک میں پانی کی قلت ایک بڑے مسئلے کے طور پر سامنے آئے گی۔