دنیا میں پانچ کروڑ انسان ’جدید غلامی‘ کا شکار، اقوام متحدہ
13 ستمبر 2022اقوام متحدہ کی پیر بارہ ستمبر کو جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً پانچ کروڑ افراد جبری مشقت اور جبری شادیوں کا شکار ہیں۔ یہ تحقیق اقوام متحدہ کی دو ایجنسیوں اور 'واک فری فاؤنڈیشن‘ کی جانب سے شائع کی گئی۔ اس تحقیق کے مطابق گزشتہ برسوں میں ایسے انسانوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
رپورٹ میں کیا کہا گیا؟
عالمی ادارے کی جاری کردہ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال کے آخر تک 28 ملین انسان جدید غلامی کا شکار ہو چکے تھے۔ اس رپورٹ میں یہ بات بھی بتائی گئی کہ تقریباً 22 ملین مردوں اور خواتین کو جبری شادیوں کے بندھن میں باندھا جا چکا تھا۔
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے مطابق 2016 سے 2021 کے درمیانی عرصے میں جبری مشقت یا زبردستی کی شادیوں کے شکار انسانوں کی تعداد میں 10 ملین کا اضافہ ہوا۔ بین الاقوامی ادارہ محنت (آئی ایل او) کے سربراہ گائی رائڈر نے اپنے ایک بیان میں کہا، ''یہ بات حیران کن ہے کہ دنیا میں جدید غلامی کی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آ رہی۔‘‘
انہوں نے کہا، ''کوئی بھی چیز انسانوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کو جاری رکھنے کا جواز مہیا نہیں کر سکتی۔‘‘ اقوام متحدہ نے 2030 تک جدید غلامی کی تمام اقسام کو ختم کرنے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے۔
وبائی امراض اور موسمیاتی تبدیلیوں جیسے بنیادی عوامل
اس تحقیق میں اس صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس کے باعث لگنے والی بیماری کووڈ انیس جیسے وبائی مرض نے بھی دنیا میں 'جدید غلامی‘ کے خطرات میں مزید اضافہ کر دیا۔
اس تحقیق میں جدید غلامی کے بڑھتے ہوئے خطرے کو موسمیاتی تبدیلیوں اور مسلح تنازعات کے اثرات سے بھی جوڑا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روزگار اور تعلیم کے حصول میں شدید رکاوٹیں، غربت میں بے تحاشہ اضافہ اور جبری اور غیر محفوظ نقل مکانی نے بھی انسانوں کے انسانوں ہی کے ساتھ نامناسب رویوں کو بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
اس رپورٹ میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ جبری مشقت کا شکار ہونے والے ہر پانچ افراد میں سے ایک کم عمر ہوتا ہے اور جبری مشقت کے ساتھ ساتھ یہ بچے جنسی استحصال کا شکار بھی ہوتے ییں۔
اس تحقیق میں یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ تارک وطن کارکنوں یا بیرون ملک کام کرنے کی غرض سے جانے والے افراد کے جدید غلامی کا شکار ہو جانے کے امکانات غیر مہاجر انسانوں یا مقامی بالغ کارکنوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہوتے ہیں۔
ترک وطن سے متعلق اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے آئی او ایم کے سربراہ انٹونیو ویٹورینو نے کہا، ''یہ رپورٹ اس بات کو یقینی بنانے کی فوری ضرورت پر زور دیتی ہے کہ ہر قسم کی ہجرت محفوظ، منظم اور باقاعدہ ہو۔‘‘
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جبری مشقت کے شکار افراد میں سے 14 فیصد ریاستی حکام کی طرف سے مسلط کردہ کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس رپورٹ میں امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی جدید غلامی اور چین کے علاقے سنکیانگ کے حراستی کیمپوں میں ممکنہ جبری مشقت کے بارے میں بھی خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔
ر ب / م م (اے ایف پی)