’’دنیا فلموں کے ذریعے پاکستانی کہانیاں سننا چاہتی ہے‘
19 مئی 2024اسلام آباد میں دو روز جاری رہنے کے بعد اس میلے کا اگلا پڑاؤ پشاور، کوئٹہ اور گجرات ہے جہاں 16 سے 29 مئی کے درمیان مختلف دنوں میں یورپین فلم فیسٹیول شائقین کو تفریح اور تربیت فراہم کرے گا۔
’ ٹیکنالوجی نے بہت کچھ تبدیل کردیا ہے، مرد و خواتین میں فرق تیزی سے مٹ رہا ہے‘
فلم ’ہوٹل ممبئی‘ بطور ’مزاحمت کا ترانہ‘
پاکستان میں یورپین فلم فیسٹیول کا یہ تیسرا ایڈیشن یے جس میں یورپی یونین کے رکن ممالک کی طرف سے تیار کردہ بیس سے زائد کامیڈی، ڈرامہ، تھرلر اور دستاویزی فلموں کی نمائش کی جائے گی۔ یہ فلمیں زیادہ تر گھریلو زندگی سے جڑے مسائل، بچپن، رومانس، تاریخ، موسمیاتی تبدیلی، جنگ، معاشی مشکلات اورانسانی حقوق جیسے وسیع موضوعات پر مبنی ہیں جن کی ایک جھلک اسلام آباد میلے میں دیکھنے کو ملی۔
فیسٹیول میں ابھرتے ہوئے نوجوان پاکستانی فلم سازوں اور اسٹوڈیوز کو بھی اپنی تخلیقات پیش کرنے کا موقع دیا گیا ہے۔
’سینما لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا اہم ذریعہ ہے‘
بدھ کو پانچ بجنے سے پہلے ہی پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کا مین آڈیٹوریم بھر چکا تھا۔ ٹھیک پانچ بجے ایک دلچسپ شارٹ فلم کے ذریعے یورپی یونین کا تعارف پیش کیا گیا۔ اس میں بتایا گیا کہ یہ ستائیس رکن ممالک ویزا کے بغیر ایک دوسرے کے شہریوں کو تعلیم، رہائش اور ملازمت کی اجازت دیتے ہیں۔ بہت سے معاملات پر اختلاف کے باوجود مکالمے کے ذریعے راستہ نکالا جاتا ہے تاکہ بہتر دنیا تخلیق کرنے کے سفر میں اپنا مثبت کردار ادا کیا جا سکے۔
’آملیٹ‘ کے نام سے شارٹ فلم کے ذریعے خواتین کی گھریلو مشکلات کی جھلک دکھائی گئی کہ بظاہر آملیٹ بنانے کا سادہ سا کام بھی کیسا مشکل ہے۔
اس کے بعد تالیوں کی گونج میں یورپی یونین کی سفیر ڈاکٹر رینا کیونکا کی اسٹیج پر آمد ہوئی جنہوں نے اپنے مختصر خطاب میں سینما، سیاست اور ماحولیاتی تبدیلی سمیت کئی موضوعات پر بات کی۔
ان کا کہنا تھا، ”یورپی یونین میں ہم فلم سازی کی تحسین محض بطور آرٹ فارم نہیں کرتے بلکہ اسے سماجی و سیاسی شعور پیدا کرنے کا موثر ذریعہ بھی سمجھتے ہیں۔ ایک تقسیم شدہ دنیا میں سینما لوگوں کو قریب لانے کا اہم ذریعہ ہے۔"
مکالمے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ”روس کی یوکرین پر چڑھائی اور مشرق وسطیٰ کے تنازعہ میں حالیہ شدت تکلیف دہ ہے۔ انسانی جانوں کا نقصان خوفناک، تکلیف دہ اور ناقابلِ قبول ہے جس سے بچنے کے لیے ہمیں مکالمے کا کلچر عام کرنا ہو گا۔ آج کا فیسٹیول اسی طرح کی ایک کوشش ہے۔"
مختصر دورانیے کی فلمیں، گہرے اثرات
فیسٹیول کے خوبصورت ترین لمحات میں سے ایک وینی لیکارڈل پر بنی مختصر دورانیے کی ڈاکیومنٹری تھی۔ حاضرین کی اکثریت کے لیے یہ نیا نام تھا مگر دو تین منٹ میں اجنبیت کی دیوار ڈھ گئی۔ وینی لیکارڈل ایک سویڈش سماجی کارکن ہیں جنہوں نے حاملہ خواتین اور سینٹری ورکرز کے لیے کام کرتے ہوئے تقریباً سینتیس برس پاکستان میں گزارے۔
پاکستان کے لوگوں، یہاں کے کلچر اور لینڈ سکیپ کو یاد کرتے ہوئے ان کی آواز میں نمی اترنے لگتی ہے۔ انہیں 2021 میں پاکستان کا اعلیٰ سول اعزاز پرائیڈ آف پرفارمنس دیا گیا۔ ان کی زندگی پر مبنی مختصر فلم کے خاتمے پر حال تادیر تالیوں سے گونجتا رہا۔
اس کے بعد پانچ مختصر دورانیے کی فلمیں دکھائی گئیں جن میں سے تین یورپی یونین کے رکن ممالک کی تیار کردہ جبکہ دو پاکستانی تھیں۔
فلموں کے موضوعات خواتین کے مساوی حقوق، شناخت کا بحران اور ماحولیاتی تبدیلیوں جیسے مسائل سے جڑے تھے۔
فیسٹیول میں کل تین فیچر لینتھ فلمیں دکھائی گئیں جن میں سے دو بچوں کی اینیمیٹڈ جبکہ ایک آسٹرین ڈرامہ فلم 'آسکر اینڈ لِلی‘ تھی۔ اس فلم کے موضوعات ہجرت، جبری گمشدگیوں، بچپن کی حیرت اور جنگوں کے عام انسانی زندگی پر اثرات کے گرد گھومتے ہیں۔
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے شائقین میں شامل نمل یونیورسٹی کی طالبہ اقرا کا کہنا تھا، ”اسے یورپی ممالک کا کلچر دوبارہ دریافت کرنے کو ملا، یہ مختصر فلمیں بہت گہرے اثرات مرتب کریں گی، یہ تجربہ اس لیے بہت یادگار رہا کہ ایسا لگا ہم سینما حال میں بیٹھ کر فلم دیکھ رہے ہوں جو پاکستان میں کسی نعمت سے کم نہیں۔"
’دنیا فلموں کے ذریعے پاکستانی کہانیاں سننا چاہتی ہے‘
وقفے کے دوران پاکستان میں یورپی یونین کی سفیر ڈاکٹر رینا کیونکا نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کی۔ ڈی ڈبلیو اردو نے پوچھا کہ آپ کو پاکستان میں سب سے زیادہ کیا پسند آیا؟ بغیر کسی لمحاتی توقف کے ان کا کہنا تھا ”ثقافتی تنوع، جسے جتنا زیادہ دریافت کیا اتنی حیرت بڑھتی جا رہی ہے۔"
ان کا مزید کہنا تھا، ”پاکستانی نوجوان بہت باصلاحیت ہیں، ان کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے، پہلے بجٹ کے مسائل تھے جو مصنوعی ذہانت کی آمد کے بعد کافی حد تک کم ہو چکے ہیں۔ اب چیزیں کہیں زیادہ آسان ہیں۔ پورپی یونین پاکستانی نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتی ہے کہ وہ اپنے کلچر کو بین الاقوامی سطح پر پیش کریں، دنیا فلموں کے ذریعے پاکستانی کہانیاں سننا چاہتی ہے۔"
اس موقع پر ’فلموں کے ذریعے دنیا کو دیکھنا: عالمی تناظر رکھنے کی اہمیت‘ کے عنوان سے ایک پینل ڈسکشن بھی فیسٹیول کا حصہ تھی، جس کے ماڈریٹر عمر خالد بٹ جبکہ معروف ڈرامہ نگار بی گل، اداکارہ ثروت گیلانی اور علی جونیجو گفتگو کرنے والوں میں شامل تھے۔
گفتگو کے دوران ثروت گیلانی کا کہنا تھا، ”اس طرح کے فیسٹیول اپنی کہانیاں، اپنے کلچر کو باقی دنیا تک پہنچانے میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مجھے یورپی سنیما کے بارے میں خاص طور پر یہ چیز پسند ہے کہ وہ چیزوں کو گلیمرائز کرنے کے بجائے اصلی شکل میں دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔"