دنیا میں پہلی بار ’ڈیزائنر‘ خلیات نے کینسر کو مات دے دی
7 نومبر 2015خبر رساں ادارے اے ایف پی نے برطانوی ڈاکٹروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایک سالہ لائلہ رچرڈز کا کامیاب علاج اس امر کا اعلان کرتا ہے کہ یہ نیا طریقہ کار اس بیماری سے نمٹنے کے لیے ایک انتہائی اہم پیشرفت ثابت ہو گا۔ اس طریقہ کار کے تحت ’گریٹ اورمنڈ سٹریٹ ہسپتال‘GOSH کے سائنسدانوں نے نیو جین ایڈیٹنگ کی تکنیک استعمال کرتے ہوئے لائلہ کے جسم میں ایسے مدافعتی خلیات کو زیادہ فعال بنا دیا، جو کینسر کے خلاف سرگرم ہو گئے۔
وسطی لندن میں واقع طبی مرکز GOSH سے منسلک پروفیسر پال ویز نے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’چونکہ ہم یہ طریقہ کار پہلی مرتبہ استعمال کر رہے تھے، اس لیے ہم نہیں جانتے تھے کہ ہم کامیاب ہوں گے یا یہ طریقہ کتنے عرصے میں اپنا اثر دکھائے گا۔ لیکن جب اس علاج نے کامیاب نتائج ظاہر کیے تو ہم خوشی سے پھولے نہ سمائے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ لائلہ کا مرض اتنا شدید تھا کہ اس کا تندرست ہو جانا ایک معجزے سے کم نہیں ہے۔
شیر خوار بچی لائلہ کو ’سیالویہ ارومی ابیضاض حادی‘ کا شدید عارضہ لاحق تھا، جو بچوں میں خون کے سرطان کی ایک عام قسم قرار دی جاتی ہے۔ وہ ابھی چودہ ہفتوں کی ہی تھی کہ وہ اس بیماری میں مبتلا ہو گئی تھی۔ کیموتھراپی کی ناکامی کے بعد ڈاکٹروں نے اس بچی کے والدین کو مشورہ دیا تھا کہ وہ آخری حل کے طور پر ’ڈیزائنر سیلز‘ کے طریقہ کار پر غور کریں۔
لائلہ کے والد ایشلے رچرڈز کے بقول، ’’وہ (لائلہ) شدید بیمار اور تکلیف میں مبتلا تھی۔ اس لیے ہمیں کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا۔‘‘ تیس سالہ ایشلے کا مزید کہنا تھا، ’’ڈاکٹروں نے ہمیں پہلے ہی بتا دیا تھا کہ وہ ایک نئی طبی تکنیک سے لائلہ کا علاج کرنے کی کوشش کریں گے لیکن اس بات کی کوئی ضمانت نہ تھی کہ یہ طریقہ کار کامیاب رہے گا۔‘‘
ڈاکٹروں نے صحت مند افراد سے ’وائٹ بلڈ سیلز‘ اور ’ٹی سیلز‘ بطور عطیہ لیے تاکہ انہیں ایک خاص طریقے سے پراسیس کرتے ہوئے جینیاتی انجینیئرنگ کے ذریعے مریضہ کے خون میں شامل کر دیا جائے اور تاکہ یہ خلیات خون کے سرطان کے خلاف اپنی مزاحمت دکھا سکیں۔ بتایا گیا ہے کہ UCART19 نامی جینیاتی طور پر ترمیم شدہ خلیات کی ایک چھوٹی سی مقدار لائلہ کے خون میں شامل کی گئی، جس نے کچھ ہفتوں میں ہی سرطان کے خلاف کامیاب مزاحمت ظاہر کرنا شروع کر دی۔
برطانوی ڈاکٹروں کے مطابق ایک مرتبہ اس طریقہ کار کے کامیاب ہونے کے بعد ایسا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ یہ تکنیک دیگر بچوں کے علاج کے لیے بھی کامیاب ثابت ہو سکتی ہے۔ GOSH کے انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر وسیم جعفر نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ہم نے اس طریقہ کار کو ابھی تک صرف ایک انتہائی صحت مند بچی پر استعمال کیا ہے۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ علاج دیگر بچوں کے لیے بھی مناسب ہو گا۔‘‘
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کسی دعوے سے قبل اس طریقہ کار کے مصدقہ طور پر انتہائی کارآمد ہونے کے لیے مزید تجرباتی علاج ضروری ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر وسیم جعفر نے البتہ کہا، ’’لیکن جینیاتی انجینیئرنگ ٹیکنالوجی میں یہ ایک تاریخی پیشرفت ہے۔ اگر یہ طریقہ کار کامیاب ہو جاتا ہے تو لیُوکیمیا اور دیگر اقسام کے سرطانوں کے علاج کے لیے یہ ایک بڑی جست ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘