دو اسرائیلی غزہ میں قید، ایک حماس کے قبضے میں
9 جولائی 2015خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اسرائیلی وزارت دفاع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایتھوپیئن نسل کے اسرائیلی Avraham Mengistu کو حماس کے جنگجوؤں نے زبردستی حراست میں رکھا ہوا ہے۔ اسرائیلی وزارت دفاع کے مطابق خفیہ اداروں کی طرف سے ایسی قابل اعتماد خبریں ملی ہیں کہ یہ اٹھائیس سالہ اسرائیلی حماس کی قید میں ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ایورہم مینگیسٹو نے سات ستمبر 2014 ء کو غزہ پٹی میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی تاہم یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس نے ایسا کیوں کیا تھا۔
وزارت دفاع نے یہ بھی بتایا ہے کہ وہ ایک اور اسرائیلی عرب کی رہائی کی کوششوں میں بھی مصروف ہے، جو غزہ پٹی میں قید ہے۔ اسرائیلی حکام نے اس بارے میں زیادہ تفصیلات جاری نہیں کی ہیں۔ حماس نے فوری طور پر ان خبروں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ اسرائیل نے غزہ پٹی کی سخت ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ یہ یہودی ریاست اپنے کسی شہری کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتی۔ اسرائیل کو اندیشہ ہے کہ حماس تنظیم اسرائیلی باشندوں کو اغوا کر کے ان کی رہائی کے عوض رعایات یا پھر اسرائیلی جیلوں میں قید اپنی ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کر سکتی ہے۔
مینگیسٹو کی رہائی کی خاطر اسرائیلی حکومت نے بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر سفارتی کوششیں جاری کر رکھی ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ اسرائیل کی ایک عدالت نے مینگیسٹو کے بارے میں عوامی سطح پر کوئی بیان جاری کرنے پر پابندی عائد کر رکھی تھی، اس لیے ابھی تک اس بارے میں میڈیا کو معلوم نہیں ہو سکا تھا۔
جمعرات 9 جولائی کو ہی جنوبی شہر اشکولون کی ایک عدالت نے اس پابندی کو ختم کیا تو یہ خبر ذرائع ابلاغ تک پہنچی۔ مقامی میڈیا کے مطابق یہ عدالتی پابندی اس لیے ختم کی گئی تاکہ مینگیسٹو کی بازیابی کی کوششوں کو مؤثر بنایا جا سکے۔ غزہ میں قید دوسرے اسرائیلی عرب کے بارے میں معلومات عام کرنے پر ابھی تک پابندی برقرار ہے۔
ایتھوپیائی یہودی آبادی کی شکایات
مینگیسٹو کے کبنے نے اپنے رشتہ دار کی بازیابی کی ناکافی کوششوں پر اسرائیلی فوج کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ جمعرات کے دن ہی اس کے گھر والوں نے میڈیا کو بتایا کہ مینگیسٹو کی رہائی کے لیے فوری اور مزید کوششیں کرنا چاہییں۔ مینگیسٹو کے بھائی آشو مینگیسٹو نے اشکولون میں اپنے گھر کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے وہ ابھی تک خاموش تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے بھائی کی صحت ٹھیک نہیں لیکن انہوں نے اس بارے میں مزید کوئی بات نہ کی۔ اس موقع پر مینگیسٹو کی والدہ بھی پرنم آنکھوں کے ساتھ وہیں موجود تھیں۔
اسرائیل میں ایتھوپیئن نسل کے ایک لاکھ 35 ہزار یہودی آباد ہیں۔ اس آبادی کا الزام ہے کہ اسرائیل میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں نسل پرستی کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ اس کمیونٹی نے حالیہ ہفتوں کے دوران پولیس کی مبینہ پرتشدد کارروائیوں اور نسل پرستانہ رویوں کے خلاف متعدد احتجاجی ریلیوں کا اہتمام بھی کیا تھا۔
ایسا خدشہ ہے کہ گیلات شالیت کی رہائی کے بعد اسرائیل یرغمالیوں کی بازیابی کے ایک نئے بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔ غزہ میں حکمرانی کرنے والی حماس تنظیم نے سن 2006ء میں اسرائیلی فوج گیلات شالیت کو اغوا کر لیا تھا۔ پانچ برس کے طویل مذاکرات کے بعد حماس نے ایک ہزار سے زائد فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے عوض اس اسرائیلی فوجی کو رہا کیا تھا۔ تاہم ان میں سے متعدد کو اسرائیلی پولیس نے دوبارہ گرفتار بھی کر لیا تھا۔