دو اعلیٰ سکیورٹی حکام سمیت افغان وزرائے داخلہ و دفاع مستعفی
26 اگست 2018افغان حکومت نے صدر اشرف غنی کے چار اعلیٰ سکیورٹی حکام کی جانب سے استعفے دیے جانے کی تصدیق کر دی ہے۔ ان افراد میں افغان صدر کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اور با اثر سیاستدان حنیف اتمر بھی شامل ہیں۔ اتمر نے اپنے استعفے کی وجہ صدر اشرف غنی سے شدید نوعیت کے اختلافات بتائی ہے۔
افغان حکومتی ذرائع کے مطابق حنیف اتمر کے استعفے کے بعد افغان وزیر دفاع طارق شاہ بہرامی، وزیر داخلہ وائص احمد برمک اور نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی کے سربراہ معصوم ستانک زئی بھی اپنے عہدوں سے مستعفی ہو گئے ہیں۔
دوسری جانب اطلاعات ہیں کہ صدر غنی نے حنیف اتمر کے علاوہ باقی تین حکام کے استعفے مسترد کرتے ہوئے انہیں اپنے فرائض منصبی جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ صدارتی محل کے ہارون چاخانسوری نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ملک کے وزرائے داخلہ و دفاع اور نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی کے سربراہ معصوم ستانک زئی کو اپنا کام جاری رکھنے کو کہا گیا ہے۔
نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر حنیف اتمر کا استعفی البتہ صدارتی ترجمان ہارون چاخانسوری کے مطابق صدر غنی نے گزشتہ روز ہی منظور کر لیا تھا اور اُن کی جگہ یہ عہدہ امریکا میں سابق افغان سفیر حمد اللہ محب کو تفویض کیا جائے گا۔
اتمر کے ایک قریبی ساتھی اور حکومتی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ حنیف اتمر کے استعفے کی وجہ یہ ہے کہ سابق سکیورٹی ایڈوائزر آئندہ برس صدر غنی کے خلاف صدارتی انتخاب لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
انچاس سالہ حنیف اتمر افغانستان کے دوسرے با اثر ترین سیاستدان سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے سن 2014 میں غنی کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک کے سکیورٹی ایڈوائزر کا منصب سنبھالا تھا۔
فی الحال صدر غنی اور حنیف اتمر کے مابین اختلافات کی وجوہات واضح نہیں ہو سکیں تاہم ظاہراﹰ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا سبب افغان حکومت کا حال ہی میں ماسکو میں ہونے والے امن مذاکرات میں شرکت نہ کرنا ہے۔ ان مذاکرات میں طالبان کے نمائندوں کو بھی شرکت کرنا تھی۔
اتمر کو، جنہوں نے سکیورٹی کے حوالے سے اپنا کیرئیر انیس سو اسی کے عشرے میں سوویت حمایت یافتہ حکومت کے ساتھ شروع کیا تھا،آج بھی روس کے قریب خیال کیا جاتا ہے۔
ص ح/ ا ا / نیوز ایجنسیاں