دو اور سر قلم، تعداد چونتیس ہو گئی
26 فروری 2015سعودی عرب کی سرکاری پریس ایجنسی نے وزارتِ داخلہ کے ایک بیان کے حوالے سے بتایا ہے کہ وِجے کمار سلیم کا تعلق بھارت سے تھا اور اُسے ایک یمنی شہری کو سر میں کلہاڑی مار کر قتل کرنے کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔
بتایا گیا ہے کہ سلیم اور اُس یمنی شہری کے درمیان جھگڑا اُس فارم پر ہوا تھا، جہاں یہ دونوں کام کرتے تھے۔ سعودی پریس ایجنسی کے مطابق وِجے کمار سلیم کی سزائے موت پر عملدرآمد دارالحکومت ریاض میں کیا گیا۔
جمعرات چھبیس فروری ہی کو ہیروئن اسمگل کرنے کے الزام میں ایک پاکستانی شہری حافظ وفاق رسول شاہ کا سر بھی قلم کیا گیا۔ اُس کی سزا پر عملدرآمد مدینہ میں کیا گیا۔ وزارتِ داخلہ کے ایک الگ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس پاکستانی شہری کے خلاف جو تحقیقات کی گئیں، اُن کے نتیجے میں اِس نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا تھا، جس کے بعد اُس پر مقدمہ چلایا گیا اور موت کی سزا سنائی گئی۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستانی بندرگاہی شہر کراچی کے راستے افغانستان سے آنے والی ہیروئن دنیا کے دیگر مقامات کو روانہ کی جاتی ہے۔ اے ایف پی نے اقوام متحدہ کے منشیات اور جرائم سے متعلق دفتر کے حوالے سے بتایا ہے کہ حالیہ برسوں کے دوران خلیجی عرب ممالک غیر قانونی منشیات کی زیادہ سے زیادہ اہم منڈی کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔
سعودی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ہر طرح کی منشیات کے خلاف جدوجہد کا تہیہ کیے ہوئے ہے کیونکہ یہ انسانوں کو جسمانی طور پر بھی اور سماجی طور پر بھی نقصان پہنچاتی ہیں۔ مزید یہ کہ قتل کے واقعات میں سزائے موت کا مقصد سکیورٹی کو برقرار رکھنا اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔
سعودی عرب میں جو سخت شرعی قوانین رائج ہیں، اُن کے تحت منشیات کی اسمگلنگ، آبرو ریزی، قتل، ارتداد اور ڈاکے کے لیے موت کی سزا دی جاتی ہے۔
رواں ہفتے بدھ کے روز حقوقِ انسانی کی علمبردار بین الاقوامی تنظیم ایجنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا کہ موت کی یہ سزائیں اکثر ’مقدمات کی غیر منصفانہ سماعت‘ کے بعد دی جاتی ہیں۔
ایمنسٹی کے مطابق ایسے الزامات بھی ہیں کہ کچھ ملزمان کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے یا پھر کسی اور طریقے سے مجبور کرتے ہوئے اُن سے زبردستی اعترافِ جرم کروایا گیا۔
اے ایف پی کے اعداد و شمار کے مطابق جہاں 2013ء میں سعودی عرب میں 78 افراد کی موت کی سزاؤں پر عملدرآمد ہوا تھا، وہاں 2014ء میں یہ تعداد بڑھ کر 87 ہو گئی۔ رواں سال کے دوسرے مہینے میں ہی یہ تعداد چونتیس تک پہنچ چکی ہے۔