دو برس بعد ماؤنٹ ایورسٹ کو پھر سر کر لیا گیا
12 مئی 2016کھٹمنڈو سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق دو برس کے وقفے کے بعد آج تین غیر ملکی کوہ پیماؤں تین نیپالی گائیڈر کی مدد سے ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
سن دو ہزار چودہ میں برفانی تودے گرنے اور پھر سن دو ہزار پندرہ میں آنے والے زلزلے کے بعد دنیا کے اس بلند ترین پہاڑ پر تمام تر سرگرمیاں روک دی گئی تھی۔ نیپال کی وزارت سیاحت کے ایک سرکاری اہلکار نے جرمن خبر رساں ادارے کو ماؤنٹ ایورسٹ بیس کیمپ سے بتایا، ’’یہ دو سال کے وقفے کے بعد ایورسٹ کی چوٹی تک پہنچنے والے پہلے غیر تین ملکی ہیں اور ان میں سے ایک کا تعلق میکسیکو سے ہے۔ یہ ہمارے لئے بڑی کامیابی ہے۔‘‘
سن دو ہزار چودہ میں نیپال میں کوہ پیمائی میں مصروف سولہ مقامی گائیڈز برفانی تودے گرنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے تھے اور اس کے بعد ان گائیڈز کے احتجاج اور راستے بند ہو جانے کی وجہ سے ماؤنٹ ایورسٹ پر تمام طرح کی سرگرمیاں روک دی گئیں تھیں۔ بعد ازاں کوہ پیمائی کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا گیا لیکن سن دو ہزار پندرہ میں 7.8 شدت کا زلزلہ آیا اور اس کے نتیجے میں ایک برفانی تودہ گرنے سے ماؤنٹ ایورسٹ کے بیس کیمپ میں موجود انیس کوہ پیما ہلاک ہو گئے تھے اور تب کوہ پیمائی پر دوبارہ پابندی لگا دی گئی تھی۔
سن دو ہزار چودہ میں پابندی لگنے کے بعد بھی چین کی ایک خاتون وانگ ینگ نے ایورسٹ کو سر کیا تھا لیکن ان کی یہ مہم متنازعہ رہی کیونکہ خاتون نے چڑھائی کا ایک حصہ ہوائی سفر کے ذریعے طے کیا تھا۔ دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کا موزوں ترین وقت مئی کا وسط ہے کیوں کہ اس دوران وہاں موسم سازگار ہوتا ہے۔
روں برس تقریباﹰ دو سو نوے غیر ملکی کوہ پیما اور چار سو نیپالی چوٹی سر کرنے کی کوشش میں ہیں۔ دنیا کی اس بلند ترین چوٹی کو سب سے پہلے سن انیس سو تریپن میں سر کیا گیا تھا۔ یہ کارنامہ نیوزی لینڈ کے ایڈمنڈ ہلیری اور ان کے نیپالی گائیڈ تینزنگ نارگے نے انجام دیا تھا۔