دو برس میں تبدیلی لے آؤں گا، السیسی
12 مئی 2014رواں ماہ کے آخر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں السیسی کی فتح کے امکانات روشن قرار دیے جا رہے ہیں۔ السیسی کے مطابق اگر ملکی عوام ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی تو اس بات کا انتظار کیے بغیر کہ فوج انہیں اقتدار سے الگ کرے وہ فی الفور اپنے عہدے سے الگ ہو جائیں گے۔ السیسی نے یہ باتیں بطور صدارتی امیدوار ایک غیر ملکی ٹیلی وژن اسکائی نیوز عریبیہ کو انٹرویو کے دوران کہیں۔ اس انٹرویو کا پہلا حصہ اتوار 11 مئی کو نشر کیا گیا۔
59 سالہ عبدالفتح السیسی کو 26 اور 27 مئی کو ہونے والے صدراتی انتخابات میں محض ایک حریف کا سامنا ہے۔ مصری میڈیا اور ان کے حامی سابق صدر محمد مُرسی کی حکومت کے خاتمے کے ان کے اقدام کی وجہ سے السیسی کو قوم کا مسیحا بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ منتخب صدر محمد مُرسی کی حکومت بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں کے بعد ملکی فوج کے ہاتھوں ختم کر دی گئی تھی۔ السیسی اس وقت مصری فوج کے سربراہ تھے۔
اس سے قبل ملکی فوج ہی نے کئی دہائیوں تک مصر پر حکومت کرنے والے آمر حسنی مبارک کے بعد عبوری حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تھی۔ حُسنی مبارک کو بڑے پیمانے پر ہونے والے عوامی احتجاج کے بعد اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑا تھا۔ 2012ء میں ہونے والے انتخابات میں اسلام پسند محمد مُرسی کے صدر بننے سے قبل تک ملکی فوج ہی مصر پر حکومت کرتی رہی تھی۔
انٹرویو کے دوران السیسی کا کہنا تھا، ’’آپ کیا سمجھتے ہیں کہ میں تیسری مرتبہ ایسی صورتحال کا انتظار کروں گا؟ اگر لوگ میری حکومت کے خلاف احتجاج کا راستہ اختیار کرتے ہیں، تو میں ان کی بات پر سر تسلیم خم کروں گا۔‘‘ السیسی کا مزید کہنا تھا، ’’میں یہ نہیں کر سکتا کہ اس بات کا انتظار کروں کہ فوج مجھے کہے کہ میں عہدہ چھوڑ دوں، میں اس طرح کا نہیں ہوں۔ میں اپنے ملک کا درد رکھتا ہوں، میں عوام کا درد رکھتا ہوں۔‘‘
السیسی کا یہ دوسرا نشریاتی انٹرویو تھا۔ گزشتہ ہفتے انہوں نے اپنا پہلا انٹرویو مصر کے ایک پرائیویٹ ٹیلی وژن اسٹیشن کو دیا تھا۔ تاہم ابھی تک انہوں نے عوامی اجتماعات سے خطاب نہیں کیا جس کی وجہ سکیورٹی تحفظات ہیں۔
اپنے انٹرویو کے دوران السیسی نے محمد مُرسی کی حکومت اور اخوان المسلمون کے ملکی اقتدار میں بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کو ایک بار پھر تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ اخوان المسلمون نے ایک متوازی لیڈرشپ قائم کر رکھی تھی اور یہ لوگ ملکی مسائل حل کرنے کی بجائے اپنی طاقت بڑھانے کی فکر میں تھے۔ السیسی کا مزید کہنا تھا کہ اس گروپ کو اپنے نظریات پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اخوان المسلمون مصری عوام کا اعتماد کھو چکا ہے۔ السیسی نے الزام عائد کیا کہ اس گروپ نے ایک سیاسی مسئلے کو مذہبی جنگ بنا دیا۔ انہوں نے ایک بار پھر اپنے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ ملک میں مذہبی حکومت کی اجازت نہیں دیں گے۔
مصری حکومت اخوان المسلمون کو ایک دہشت گرد گروپ قرار دے کر اس پر پابندی عائد کر چکی ہے۔ مصری حکومت کا الزام ہے کہ اس گروپ نے ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے ایک منظم مہم چلائی جبکہ اخوان المسلمون کسی قسم کا پر تشدد راستہ اختیار کرنے کی تردید کرتے ہوئے اسے حکومت کی طرف سے محض خود پر الزام قرار دیتی ہے۔