1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دو ہزار گیارہ کے اختتام تک عالمی آبادی سات ارب

18 اگست 2011

رواں سال کے اختتام پر دنیا کی آبادی سات ارب تک پہنچ جائے گی۔ یہ بات جمعرات کو فرانس کے ایک تحقیقی ادارے نے اپنی نئی شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتائی۔

https://p.dw.com/p/12Ibw
تصویر: AP

نیشنل انسٹیٹیوٹ فار ڈیموگرافک اسٹڈیز کی پیش گوئی ہے کہ دنیا کی آبادی میں مستقل اضافہ ہوتا رہے گا اور وہ رواں صدی کے اختتام پر 9 سے 10 ارب کے درمیان پہنچ کر مستحکم ہو جائے گی۔

1999ء میں لگائے گئے تخمینے کے مطابق عالمی آبادی چھ ارب نفوس پر مشتمل تھی، تاہم عالمی سطح پر شرح پیدائش اور شرح اموات کے درمیان فرق میں ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں محض 12 سال کے عرصے میں اس میں ایک ارب افراد کا اضافہ ہوا ہے۔

اقوام متحدہ، عالمی بینک اور کئی اہم قومی اداروں کی شمولیت سے کی جانے والی تحقیق پر مبنی رپورٹ کے مطابق انسٹیٹیوٹ کو توقع ہے کہ مزید 14 سالوں میں دنیا کی آبادی آٹھ ارب تک پہنچ جائے گی، جس کے بعد اس میں استحکام آنا شروع ہو جائے گا۔

تاریخی اعتبار سے انیسویں صدی سے عالمی آبادی میں اضافے کا عمل جاری ہے۔

China Bevölkerung
2050ء تک بھارت چین کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گاتصویر: AP

رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ گزشتہ دو سو سالوں میں دنیا کی آبادی میں سات گنا اضافہ ہوا ہے اور وہ 2011ء میں سات ارب کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اس وقت دنیا میں سات ممالک ایسے ہیں جن کی آبادی دنیا کی نصف آبادی کے قریب ہے اور وہاں آبادی کے تناسب میں تبدیلیوں کا اس میں بڑا کردار ہوگا۔ ان میں چین سرفہرست ہے، جس کی آبادی ایک ارب تینتیس کروڑ افراد پر مشتمل ہے جبکہ دوسرے نمبر پر آنے والے بھارت میں ایک ارب سترہ کروڑ افراد بستے ہیں۔ دیگر پانچ ملکوں میں بالترتیب امریکہ، انڈونیشیا، برازیل، پاکستان اور نائیجیریا شامل ہیں۔

انسٹیٹیوٹ کا تخمینہ ہے کہ چین میں ایک بچے کی پالیسی سے آبادی کی تعداد معتدل ہونے کے سبب 2050ء تک بھارت اسے پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔

اگرچہ مجموعی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے مگر اضافے کی شرح میں کمی واقع ہو رہی ہے اور وہ رواں سال 1.1 فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ خواتین میں بچے پیدا کرنے کی شرح گھٹ کر 2.5 تک رہ گئی ہے، جو کہ 1950ء کے مقابلے میں نصف ہے۔

تاہم اس میں بھی علاقائی تفاوتیں موجود ہیں اور افریقہ میں یہ شرح 4.7 ہے جبکہ اس کے مقابلے میں یورپ میں یہ محض 1.6 ہے۔

رپورٹ: حماد کیانی

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں