دھمکيوں کے باوجود پوليو مہم کا آغاز
16 فروری 2016پاکستان اور افغانستان وہ واحد ممالک ہیں، جہاں اب بھی پولیو وائرس کئی زندگیوں کو متاثر کر رہا ہے۔ کراچی میں اس مہم میں کام کرنے والے روٹری انٹرنیشنل کے پراجیکٹ مینجیر اشعر علی کا کہنا ہے، ’’ ہم نے اپنے اقدامات بڑھا دیے ہیں، کیونکہ معمول کے اقدامات سے پولیو کا خاتمہ ممکن نہیں ہو سکتا۔‘‘
پاکستان میں پولیو کے کیسز میں کمی آئی ہے۔ گزشتہ برس ملک بھر میں 54 جبکہ سن 2014 میں پولیو کے 80 کیسز سامنے آئے تھے۔ تازہ مہم کے تحت ملک کے ہر بچے کو اس سال مئی کے اختتام تک پولیو ویکسین دے دی جائے گی۔
پاکستان میں پولیو کے خاتمے کی مہم شدت پسندوں کی جانب سے حملوں کے باعث شدید متاثر ہوئی ہے۔ عسکريت پسند پولیو ورکرز کو مغربی ممالک کے ایجنٹ قرار دیتے ہیں یا دعوی کرتے ہيں کہ پولیو ویکسیسن بچوں کو بانجھ کر دیتی ہے۔ اس برس جنوری میں ایک خودکش بمبار نے کوئٹہ میں ايک پولیو سينٹر کے قریب 15 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
انسداد پولیو مہم کے لیڈروں اور سکیورٹی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ پولیو سے متعلق آگہی بڑھ جانے اور سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ بہتر کوآرڈینیشن کے باعث پولیو ٹیموں پر حملوں میں کمی آئی ہے۔ اس حوالے سے کمیونٹی ہیلتھ ورکر زبیدہ بیبی، جو کراچی میں پولیو مہم کا حصہ ہیں، کہتی ہیں، ’’اب مجھے ڈر نہیں لگتا، علاقے کے لوگ ہمیں جانتے ہیں ۔‘‘
دوسری جانب کچھ پولیو ورکرز کے مطابق اب بھی کچھ والدین بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلانا چاہتے۔ اس حوالے سے ریحانہ بی بی کہتی ہیں، ’’ اب بھی لوگ بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلانا چاہتے لیکن ہم انہیں اس بارے میں آگہی دے رہے ہيں اور انہيں اس طرف مائل کرنے کی کوشش کر رہے ہيں۔‘‘
پاکستان میں پولیو ورکرز کے بارے میں منفی تاثرات تب سامنے آئے تھے، جب امریکا کے خفیہ ادارے سی آئی اے کے لیے ایک پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی نے پولیو ورکر کے بھیس میں اسامہ بن لادن کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ کچھ عرصے بعد ایبٹ آباد کے ایک گھر پر امریکی افواج نے آپريشن کر کے اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا تھا۔