دھوبی کلچر خطرے میں
7 فروری 2011ممبئی کے ایک دھوبی گھاٹ پر پریم شنکر کانوجیا بھی کام کرتے ہیں جو ان ہزاروں دھوبیوں کی طرح اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اس پیشے میں ہیں۔ ایک دن میں ہزار کے قریب مختلف طرح کے کپڑے دھونے اور سکھانے کے عوض انہیں صرف سات یورو کے مساوی رقم ملتی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اب گھروں میں واشنگ مشین کی موجودگی کے باعث انہیں خاطرخواہ کپڑے نہیں ملتے، " مستقبل میں ہمیں اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے زیادہ کام ملنے کی امید نہیں ہے کیونکہ اب ہر کوئی گھر میں واشنگ مشین کے ذریعے اپنے کپڑے دھو لیتے ہیں۔ پہلے ہمیں دن میں سو کے قریب کپڑے مل جایا کرتے تھے اور اب ہم دس کپڑے بھی جمع کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں"۔
اس دھوبی گھاٹ کی ہلچل بھری زندگی سے کچھ ہی دور ایک شوروم کی زندگی دھوبی گھاٹ کی زندگی سے بلکل متصادم نظر آتی ہے۔ یہاں پالش کیے گئے ماربل کے فرش پر قطار در قطار لگی نئی واشنگ مشینیں ان عام بھارتیوں کی خدمات کے لیے حاضر ہیں جو انہیں خریدنے کی مالی طاقت رکھتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں میں فاطمہ صافی بھی شامل ہیں۔
فاطمہ کہتی ہیں کہ گھروں پر کپڑوں کی دھلائی نہ صرف آسان ہے بلکہ وقت کی بھی بچت ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گھروں میں مشینوں کے باعث اب وہ دھوبی گھاٹ پر کپڑے کھو جانے کے نقصان سے بھی بچ گئے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر آپ دھوبیوں کو کپڑے دے رہے ہیں تو ضروری ہے کہ انہیں پہلے گن لیا جائے ۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ کپڑے لیتے وقت بھی آپ موجود ہوں ورنہ آپ کو پورے کپڑے نہیں ملتے۔
آج ممبئی شہر کے لاکھوں باسیوں کو صاف کپڑے مہیا کرنے والے کوئی 10 ہزار کے قریب دھوبی نہایت غربت کی زندگی گزارتے ہوئے یہ دعا کر رہے ہیں کہ انہیں کم سے کم اتنا پیسہ تو نصیب ہو جائے کہ وہ کچھ بہتر حالات میں زندگی گزار سکیں۔
رپورٹ: عنبرین فاطمہ
ادارت: افسر اعوان