دہشت گردی سوچوں کو زہر آلود بنا دیتی ہے
23 جولائی 2011خوف زدہ شہری ہر کسی کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کی نظر میں کوئی بھی دہشت گرد ہوسکتا ہے اور کسی بھی ٹرین میں دھماکہ ہو سکتا ہے۔ کبھی کسی داڑھی والے کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے توکبھی کوئی صرف اس وجہ سے مشکوک نظر آتا ہے کہ وہ غیر ملکی ہے اور اس نے کسی دوسری طرز کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ دہشت گردی سے سوچیں زہر آلود ہوتی ہیں تو یہ غلط نہ ہوگا۔ ان زہر آلود سوچوں کا مظہر یورپ کی وہ سیاسی جماعتیں بھی ہیں، جنہیں غیرملکی اور اسلام مخالفانہ ہونے کی بنا پر انتخابی کامیابیاں ملی ہیں۔
یہ سوچیں یورپ میں کس قدر پھیلی ہوئی ہیں اس کا اندازہ اوسلو دھماکوں کے فوراﹰ بعد ہونے والے تجزیوں سے بھی ہوتا ہے۔ فوری طور پر یہ کہنا شروع کر دیا گیا کہ ناروے حکومت افغانستان میں جاری جنگ اور لیبیا کے خلاف فضائی حملوں میں شریک ہے لہذا حملہ آور کوئی مسلمان ہو سکتا ہے۔
حکومتی عمارت کے بعد جونہی نوجوانوں کے ایک سینٹر کو نشانہ بنایا گیا تو جرمن ٹیلی وژن پر دہشت گردی پر ماہرانہ رائے رکھنے والوں کا کہنا تھا کہ ایک وقت میں کئی اہداف کو نشانہ بنانا القاعدہ کی حکمت عملی رہی ہے۔ جب یہ خبر آئی کہ گرفتار ہونے والا حملہ آور ناروے کا شہری ہے تو یہ کہا جانے لگا کہ کوئی مسلمان تارکین وطن ہو سکتا ہے۔ جس وقت یہ پتہ چلا کہ دہشت گرد سنہرے بالوں اور نیلی آنکھوں والا ہے تو یہ تجزیے سامنے آئے کہ اسلام قبول کرنے والا کوئی یورپی ہو سکتا ہے۔
جرمن ٹیلی وژن پر اس طرح کے بیانات کے تناظر میں یہاں پرامن رہنے والے مسلمانوں نے کیا محسوس کیا ہوگا؟ کیا اس طرح کے بیانات بھی سوچوں کو زہر آلود نہیں کر سکتے؟
دریں اثناء یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ حملہ آور دہشت گرد کوئی مسلمان نہیں بلکہ ایک بنیاد پرست مسیحی ہے۔ دہشت گرد کے بارے میں مزید کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا لیکن جو بات یقین سے کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ دہشت گردی ایک انتہائی گھناؤنا فعل ہے اور یہ سوچوں کو زہر آلود بنا دیتا ہے۔
تبصرہ: فلیکس شٹائنر / امتیاز احمد
ادارت: عاطف بلوچ