1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب سمیت مسلم ممالک کا بلاک بنایا جائے، ایران

11 دسمبر 2016

ایران نے تجویز پیش کی ہے کہ دہشت گردی کو ختم کرنے اور اقتصادی اشتراک عمل کو فروغ دینے کے لیے مسلم ممالک کا ایک ایسا بلاک تشکیل دیا جانا چاہیے، جس میں سعودی عرب بھی شامل ہو۔

https://p.dw.com/p/2U66X
Iran Ali Laridschani im Parlament in Teheran
تصویر: picture alliance/abaca

آج اتوار کو ایک سکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ملکی پارلیمان کے اسپیکر علی لاریجانی نے کہا کہ ایران اور سعودی عرب کو ترکی، مصر، عراق اور پاکستان کو ساتھ ملانا چاہیے اور ’اسلام کی بنیاد پر علاقائی امن‘ کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کا دفاع کرنا چاہیے۔ ان کاکہنا تھا کہ اسی طرح دہشت گردی سے نمٹا اور اقتصادی مفادات کی حفاظت کی جا سکتی ہے۔

ایران اور سعودی عرب کو ایک دوسرے کے روایتی حریف سمجھا جاتا ہے اور یہ دونوں ہی ملک شام اور یمن میں متحارب گروپوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ سعودی عرب نے رواں برس جنوری میں ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات اس وقت منقطع کر دیے تھے جب تہران میں مشتعل مظاہرین نے اس کے سفارت خانے پر حملہ کر دیا تھا۔ یہ مظاہرین سعودی عرب میں ایک شیعہ عالم کی پھانسی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔

مشرق وسطیٰ: سیاسی لڑائی کے تباہ کُن فرقہ وارانہ نتائج

تاہم اپنی اس تقریر میں علی لاریجانی کا سعودی حکومت کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’سعودی عرب اور دوسری اقوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایران ان کا دشمن نہیں ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایران ’’شام اور یمن میں جنگی جنون کی مخالفت‘‘ کرتا ہے اور ان علاقائی تنازعات کا حل چاہتا ہے۔ شام اور یمن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’قومی یک جہتی پر مبنی حکومتیں جمہوری طریقوں کا سہارا لے کر قائم کی جائیں۔‘‘

کیا ایران خطے میں اپنے اثرو رسوخ کو بڑھانے میں مصروف ہے؟ اس حوالے سے انہوں نے کہا، ’’ایران خطے میں نہ تو کسی سلطنت کے قیام کے پیچھے بھاگ رہا ہے اور نہ ہی قائدانہ کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ اتحاد کو بہتر بنایا جائے۔‘‘

ایران شام میں صدر اسد کا انتہائی قریبی حلیف ہے جب کہ لبنان کے حزب اللہ اور عراقی شیعہ ملیشیا کو بھی اس کی حمایت حاصل ہے۔ گزشتہ ہفتے بحرین میں دو روزہ سکیورٹی سمٹ کا انعقاد کیا گیا تھا، جس میں مغرب کے حمایت یافتہ خلیجی ممالک کے رہنماؤں نے ایران کا مقابلہ کرنے کی ضرورت پر اتفاق کیا تھا۔ ان رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ایران خطے میں ’عدم استحکام‘ کی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے، جس کا مقابلہ کیا جانا ضروری ہے۔

ایک برس پہلے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے سعودی عرب نے چونتیس ممالک پر مشتمل ایک ’اسلامی فوجی اتحاد‘ کے قیام کا اعلان کیا۔ اس اتحاد میں ایران کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔