دہشت گردی کے خلاف مذہبی اسکالروں سے مدد طلب
13 جولائی 2011خیبر پختونخواہ کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے خبر رساں ادارے آئی پی ایس سے بات چیت میں کہا: ’’ملک دہشت گردی کے عفریت کا شکار ہے۔ اس پر قابو پانے کے لیے سب طریقے اور حکمت عملیاں اختیار کر کے دیکھ لی گئیں، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ آخری حربے کے طور پر ہم مذہبی اسکالروں سے درخواست کر رہے ہیں کہ معاشرے میں امن کے قیام کی کوششوں میں مدد کریں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ علماء دہشت گردی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ لوگ ان کی عزت کرتے ہیں اور ان کی سنتے ہیں۔ میاں افتخار نے کہا کہ صوبائی حکومت نے ان مذہبی رہنماؤں سے اپیل کی ہے کہ وہ آگے آئیں اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومت کی مدد کریں۔
جماعت اسلامی کے سربراہ قاضی حسین احمد نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام کو امن کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ قاضی حسین احمد نے حال ہی میں امن مشن پر ملک کا دورہ کیا تھا۔
گزشتہ برس بیس اپریل کو جماعت اسلامی کے ایک سینئر رہنما دوست محمد خان صوبائی دارالحکومت پشاور میں ایک بم دھماکے کے نتیجے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے میں دیگر ستائیس افراد بھی ہلاک ہوئے تھے۔
آئی پی ایس کے مطابق جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے دہشت گردی کی مذمت میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا، حالانکہ وہ دو خود کش حملوں کا نشانہ بنے، جن میں وہ محفوظ رہے۔
پشاور کے یونیورسٹی ٹاؤن کے پیش امام مولانا عبدالباقی کا کہنا ہے کہ ایسے حالات میں امن قائم کرنے کے لیے مذہبی اسکالروں کا کردار بہت اہم ہے۔
مقامی پولیس اہلکار ارشاد خان کہتے ہیں کہ مذہبی ہم آہنگی وقت کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں اسکالر مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس جنوری میں حکومت نے شہروں میں بڑی مساجد سے اعلانا ت کروانا شروع کیے تھے، جن کا مقصد دہشت گردی کے خلاف عوامی حمایت حاصل کرنا تھا۔
رپورٹ: ندیم گِل/ آئی پی ایس
ادارت: افسر اعوان