دہلی فسادات: ہلاکتیں تیس سے زائد، حالات اب بھی کشیدہ
27 فروری 2020بھارتی دارالحکومت دہلی میں جاری فرقہ وارانہ فسادات میں ہلاکتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ طبی حکام نے اب تک 32 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے جبکہ دو سو سے زائد زخمی اب بھی ہسپتالوں میں داخل ہیں۔ ان میں سے متعدد کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے۔ بدھ 26 فروری کی درمیانی شب شمال مشرقی دہلی کے بھجن پورہ، موج پور اور کراول نگر جیسے علاقوں میں آگ لگانے، پتھراؤ اور جھڑپوں کی تازہ وارادت ہوئی ہیں۔
قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوال نے امن امان کی اپیل کے ساتھ انہی علاقوں کا دورہ کیا تھا اورعوام کو یقین دہانی کروائی تھی کہ حکومت کسی بھی صورت میں اس پر قابو پا کر رہے گی۔ تاہم ان کے دورے کے بعد ہی تشدد کے تازہ واقعات پر سبھی کو گہری تشویش ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اب حالات کنٹرول میں ہیں اس نے تشدد کے سلسلے میں اب تک 18 مقدمات درج کیے ہیں اور تقریبا سو افراد کو گرفتار کیا ہے۔
جن بتیس افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے اس میں 30 اموات گرو تیغ بہادر اسپتال میں ہوئیں جبکہ دو افراد کی موت لوک نائیک جے پرکاش نارائن اسپتال میں ہوئی ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں بیشتر نوجوان ہیں لیکن اس میں خواتین اور بزرگ بھی شامل ہیں۔ بدھ کے روز وزیراعظم نریندر مودی اور دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجری وال نے عوام سے امن و امان قائم کرنے کی اپیل کی تھی۔
ادھر کانگریس پارٹی نے دلی میں ہونے والے فسادات کے لیے حکومت پر سخت نکتہ چینی کی ہے اور کہا ہے کہ حکومت نے دانستہ طور پر فسادیوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جس کی وجہ سے اتنے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔ پارٹی کا کہنا ہے۔ پارٹی نے آج اس سلسلے میں صدر سے ملاقات کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
ان فسادات کے حوالے سے دہلی کی پولیس پر بھی شدید نکتہ چینی ہورہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس نے اگر وقت پر کارروائی کی ہوتی تو اسے مزید پھیلنے سے روکا جا سکتا تھا۔ گزشتہ روز جب قومی سلامتی کے مشیر نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے لوگوں سے ملاقات کی تو بیشتر افراد یہی شکایت کرتے ملے کہ پولیس نے ان کی کوئی مدد نہیں کی۔
شمال مشرقی دلی میں بھجن پورہ، جعفرآباد، سیلم پور، کراول نگر، موج پو، چاند باغ اور دیال پور جیسے علاقے تشدد سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ میڈیا میں اس طرح کی بھی خبریں شائع ہوئی ہیں کہ ان فسادات کے دوران مسلمانوں کی دوکانوں اور مکانات کو چن چن کر نشانہ بنایا گيا ہے اور اس دوران پولیس لاتعلق رہی۔
ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)