’دی ادر سائڈ‘ پاکستانی طالب علموں کی کامیاب کاوش
17 مئی 2012’’The Other Side ‘‘کراچی کی اقراء یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے چھ نوجوانوں کی مشترکہ پیشکش ہے۔ بیس منٹ دورانیےکی اس فلم کو واشنگٹن میں ہونے والے نیشنل فلم فیسٹیول فار ٹیلینٹڈ یوتھ میں بہترین آڈینس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ فلم کی کہانی پاکستان کے شمالی علاقوں پر ہونے والے ڈرون حملوں سے وہاں کی آبادی پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں ہے۔ ساتھ ہی اس فلم کے ذریعے قبائلی علاقہ جات کی عوام کو درپیش سماجی، ذہنی اور معاشی مسائل کی ایک جھلک سے آگاہ کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔
فلم کے پروڈیوسر اور اقراء یونیورسٹی میں میڈیا سائنس کے طالبعلم عتیق اللہ خان کہتے ہیں کہ اپنی فلم کے لیے ڈرون حملوں کے موضوع کو چُننے کا مقصد پاکستان میں جاسوس طیاروں کے حملوں سے پیدا ہونے والی صورتحال کو اجاگر کرنا ہے۔’’ میں اور اس فلم کے مصنف و ہداہتکار دانش قاسم پاکستان کے مسائل کے بارے میں بات چیت کر رہے تھے۔ ہم نے سوچا کہ کیوں نہ پاکستان میں ڈرون حملوں کی صورت میں ہونے والے ظلم کے بارے میں اپنی یونیورسٹی کی جانب سے ایک اسکرپٹ تحریر کریں۔ یہی ڈسکس کرتے کرتے ہم یہاں تک پہنچ گئے کہ اسکرپٹ بھی تحریر کر ڈالا اور اس کی عکسبندی بھی کر لی۔‘‘
فلم کی کہانی ایک ایسے نوجوان کردار کے گرد گھومتی ہے، جس کے والد ایک اسکول میں پڑھاتے تھے۔ اسکول پر ہونے والے ڈرون حملے میں والد جاں بحق ہوجاتے ہیں، جس کے بعد اس نوجوان میں امریکا اور اس کے حملوں کے خلاف غم و غصہ شدت اختیار کر لیتا ہے۔ اس فلم میں نہایت خوبصورت طریقے سے دکھایا گیا ہے کہ کس طرح شدت پسند تنظیمیں معصوم نوجوان کے جذبات کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ فلم میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے تمام عکسبندی بلوچستان کے ایک ایسے پسماندہ علاقے میں کی گئی، جہاں لوگ کیمرے تک سے واقف نہیں تھے۔ عتیق اللہ بتاتے ہیں کہ فلم کی شوٹنگ سے قبل انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔’’ جب ہم نے لوگوں کو بتایا کہ ہم شوٹنگ کے لیے آئے ہیں تو پہلے تو وہ گھبرا گئے۔ پھر ہمیں کیمرا نہیں مل رہا تھا۔ کسی طرح وہ حاصل کیا تو یہاں کے مقامی سرداروں سے شوٹنگ کی اجازت لینا بھی دشوار گزار مرحلہ تھا۔ پھر اس فلم میں تمام کردار ادا کرنے والے لوگ وہاں کے مقامی لوگ تھے جو اس بات کو محسوس کرتے تھے کہ ان پر ہونے والے ڈرون حملے غلط ہیں‘‘
اپنی ٹیم کا تعارف کرواتے ہوئے عتیق اللہ کا کہنا تھا کہ اس فلم پر بہت محنت کی گئی ہے اور اسے مکمل طور پر میڈیا سائنس کے طالب علوں نے ہی تشکیل دیا ہے۔’’ہماری ٹیم میں دانش قاسم شامل ہیں جو اس فلم کے ہدایت کار اور مصنف ہیں۔ علی رضا ڈائریکٹر آف فوٹوگرافی ہیں۔ عامر بھگت موشن گرافکس پر تھے۔ احسن رضا نے میوزک پر کام کیا۔ انینیمیشن پر وقاص میر اعوان نے کام کیا۔ اس پروجیکٹ میں ہم نے کوئی چیز نیٹ سے نہیں اٹھائی۔ میوزک بھی خود ترتیب دیا، یہاں تک کہ ڈرون جو دیکھایا وہ بھی خود ہی اینی میٹ کیا۔ پاکستان میں ٹیلینٹ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ صرف تھوڑی سی توجہ کی ضرورت ہے۔‘‘
عتیق کے مطابق اس فلم کو واشنگٹن میں نیشنل فلم فیسٹیول فار ٹیلینٹڈ یوتھ کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر ہونے والے مزید فورمز پر بھی دکھایا جائے گا۔ ان کے بقول اس فلم کو واشنگٹن کے بعد اب نیویارک میں بھی سن دو ہزار تیرہ میں ہونے والے پیس فلم فیسٹیول میں اسکرینگ کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ شکاگو میں ہونے والے پیس فارم میں اسکرینگ کے لیے اس فلم کو طلب کیا گیا ہے۔
اس فلم کو بہترین آڈینس ایوارڈ کے شعبے میں جیتنے کے باوجود نوجوانوں کی یہ ٹیم ایوراڈ وصول کرنے سے قاصر رہی۔ اور اس کا تھوڑا بہت شکوہ انہوں نے حکومت سے بھی کیا۔ ’’ہمیں حکومت سے کوئی سپورٹ نہیں چاہیے۔ دو مرتبہ ہم نے امریکا کا ویزا حاصل کی کوشش کی لیکن ہمیں درخواست مسترد کر دی گئی۔ اُس وقت بھی ہمیں حکومت سے کوئی امید نہیں تھی کہ ہم ان سے کچھ کہیں گے تو کام ہو جائے گا۔ ہم تو بس یہ چاہتے ہیں کہ حکومت اپنے عوام کے لیے کچھ کرے‘‘ ۔
ان نوجوان طالبعلوں کے مطابق ان کا اگلا منصوبہ سوات اور وزیرستان میں تعلیمی ادارے تباہ کرنے کے حوالے سے ہو گا، جس میں وہ دنیا کو آگاہ کریں گے کہ کس طرح پاکستانی نوجوانوں کا مستقبل تباہ کیا جا رہا ہے اور اس کے نوجوانوں پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
رپورٹ:عنبرین فاطمہ
ادارت:عدنان اسحاق