ذوالفقار علی وزیر اعظم کی کوششوں سے بچے، مریم نواز کا دعویٰ
29 جولائی 2016خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے مریم نواز کے ایک ٹوئٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگرچہ انڈونیشیا میں منشیات کی اسمگلنگ میں سزائے موت پانے والے پاکستانی کی سزا پر عملدرآمد کو رکوانا انتہائی مشکل ہے لیکن وزیر اعظم نواز شریف نے فیصلہ کیا کہ وہ ذوالفقار کی سزائے موت پر عملدرآمد کو رکوانے کی ایک اور کوشش کریں گے، جو کامیاب ہو گئی۔‘‘
جکارتہ حکومت نے جمعرات کی رات چار مجرمان کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا جبکہ دیگر دس مجرمان کو نامعلوم وجوہات کی بنا پر فائرنگ اسکواڈ کے سامنے نہ لایا گیا۔ اگرچہ حکومت نے اس تاخیر پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے لیکن مقامی میڈیا کے مطابق جس جیل میں ان مجرمان کو سزا دی جانا تھی، وہاں اچانک طوفانی صورتحال کے باعث اسے مؤخر کرنا پڑ گیا۔
انڈونیشیا کے اٹارنی جنرل نے انتیس جولائی بروز جمعہ میڈیا کو بتایا کہ فوری طور پر ان دس مجرمان کی سزائے موت پر عملدرآمد کا امکان نہیں ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا، ’’ایک بات یقینی ہے کہ ان مجرمان کی سزا پر عملدرآمد ہو کر ہی رہے گا۔‘‘
گزشتہ رات جن مجرمان کو فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کیا گیا، ان میں نائجیریا کے تین باشندوں کے علاوہ ایک انڈونیشی شہری بھی شامل تھا۔ اقوام متحدہ کے سربراہ بان کی مون اور یورپی یونین کی طرف سے شدید دباؤ کے باوجود ان مجرمان کو ہلاک کر دیا گیا ہے جبکہ جکارتہ حکومت کا کہنا ہے کہ منشیات کی اسمگلنگ میں مجرم قرار پانے والوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔
جن دیگر مجرمان کو اس سزا کا سامنا ہے، ان میں ایک پاکستانی شہری کے علاوہ بھارتی اور زمبابوے کے باشندے بھی شامل ہیں۔ باون سالہ پاکستانی شہری ذوالفقار علی کو نومبر سن دو ہزار چودہ میں ہیروئن کی اسمگلنگ کے شبے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اسے عدالتی کارروائی کے بعد سن دو ہزار پندرہ میں موت کی سزا سنا دی گئی تھی۔ تاہم انسانی حقوق کے سرکردہ اداروں کا کہنا ہے کہ علی شفاف عدالتی کارروائی سے محروم رہے اور ایسے امکانات ہیں کہ انہوں نے تشدد کے باعث اقبال جرم کیا۔
مریم نواز نے ذوالفقار علی کی سزائے موت کو مؤخر کروانے کا سہرا نواز شریف کے سر باندھتے ہوئے کہا ہے کہ حکومتی کوششیں کار گر ثابت ہوئی ہیں۔ پاکستانی سیاسی منظر نامے پر یہ خاتون سیاستدان پاکستان مسلم لیگ نون کے سربراہ نواز شریف کی جانشین قرار دی جاتی ہیں۔ پاکستان سفارتی اور سیاسی سطح پر علی کی سزائے موت کو رکوانے کی کوشش میں مصروف ہے۔
تاہم یہ امر اہم ہے کہ پاکستان کی طرف سے انڈونیشیا پر اپنے شہری کی سزائے موت رکوانے کی کوشش اسلام آباد کی اپنی پالیسیوں سے متصادم بھی نظر آتی ہے، جہاں دسمبر سن دو ہزار چودہ سے اب تک چار سو سولہ مجرمان کو تختہ دار پر لٹکایا جا چکا ہے۔
پاکستان میں سزائے موت کے عملدرآمد پر عائد چھ سالہ پابندی ختم ہونے کے بعد گزشتہ برس تین سو تینتس افراد کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا گیا تھا۔ اس تناظر میں پاکستان نے ایسی عالمی اپیلوں کو مسترد کر دیا ہے، جو اس سزا پر پابندی کے مطالبات سے پُر تھیں۔
ادھر انڈونیشیا کے صدر جوکو ودودو بھی اپنے ملک میں سزائے موت کا ڈرامائی طور پر دفاع کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انڈونیشیا منشیات اور اس کے اسمگلروں کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں اقتدار سنبھالنے والے ودودو کا کہنا ہے کہ ایسے مجرمان پر رحم نہیں کیا جائے گا کیونکہ ان کی وجہ سے انڈونیشیا میں بڑی تعداد میں انسانوں کی ہلاکتیں منشیات کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔