رائس کی رہائی کے لئے ایران سے معاہدہ نہیں کیا، فرانس
16 مئی 2010پچیس سالہ رائس پرالزام تھا کہ انہوں نے متنازعہ صدارتی انتخابات کے بعد شروع ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے بارے میں تفصیلات اور تصویریں بیرون ملک بھیجیں۔ تقریبا دس ماہ تک کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد رائس اتوار کو فرانس واپس پہنچیں۔
ایران کی ایک عدالت نے رائس کو دس سال کی قید سنائی تھی۔ تاہم بعد ازاں اس قید کو 190,000 پاونڈ کے جرمانے میں بدل دیا گیا۔ رائس کے ایرانی وکیل محمد علی ماہدوی نے کہا کہ انہوں نے اپنی مؤکلہ کی طرف سے جرمانے کی رقم ادا کر دی ہے۔
رائس کو گزشتہ سال جولائی میں گرفتار کیا گیا تھا اور چھ ہفتے بعد اسے ضمانت پر رہاکر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ تہران میں فرانسیسی سفارت خانے میں رہائش پذیررہیں۔
رائس اپنی تدریسی تحقیق کے سلسلے میں چھ ماہ کے لئے ایرانی شہر اصفحان گئی ہوئی تھیں کہ گزشتہ سال بارہ جون کے صدارتی انتخابات کے بعد بھڑکنے والے ہنگاموں کے بعد انہیں گرفتار کر لیا گیا۔
رائس کے فرانس پہنچنے پر فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی ان کا استقبال کریں گے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے صدارتی دفتر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ رائس اور ان کی فیملی اتوار کی شب صدارتی محل میں صدر سے ملاقات کرے گی۔
رائس کی رہائی کے بارے میں یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ اسے آزاد کروانے کے لئے فرانسیسی حکومت نے ایرانی حکومت سے کوئی خفیہ ڈیل کی ہے۔ تاہم اتوار کو فرانسیسی وزیر خارجہ برنارڈ کوشنئیر نے ایک مقامی ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے ایسی تمام قیاس آرائیوں کو غلط قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ رائس کی رہائی کے لئے کوئی رقم یا کوئی ڈیل نہیں کی گئی۔
کئی ناقدین کا کہنا ہے کہ فرانسیسی حکومت کی طرف سے تہران کے متنازعہ جوہری پروگرام پر سخت رویے کی بناء پر ایران نے اس خاتون لیکچرر کو گرفتار کیا تھا۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے ہی فرانس کی ایک عدالت نے ایک ایرانی انجینئر کو رہا کر دیا تھا۔ اس پر الزام تھا کہ وہ الیکٹرانک آلات غیر قانونی طورپرایرانی فوج کو بھیجتا ہے۔ امریکہ چاہتا تھا کہ ماجد کاکاوند نامی اس انجینئر کو امریکہ کے حوالے کیا جائے تاکہ مکمل تحقیقات کی جا سکیں، تاہم فرانس نےاسے واپس وطن جانے کی اجازت دے دی تھی۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: ندیم گِل