رات کے وقت ملک بدری، افغان خاندانوں کی امیدوں کی موت
9 مئی 2019
رات کے اوقات میں ملک بدری عام بات نہیں ہے اور انسانی حقوق کے گرپوں کا کہنا ہے کہ سربیا کی جانب کوئی بھی وہاں موجود نہیں تھا جو ان خاندانوں کو وہاں سے لے جاتا۔ اقوام متحدہ کی مہاجرت سے متعلق ادارے نے بھی بدھ کے روز اس طرح ملک بدریوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
اقوام متحدہ کی ریفیوجی ایجنسی کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق، ’’ہنگری کا سیاسی پناہ کےمتلاشی دو افغان خاندانوں کو زبردستی ملک چھوڑنے پر مجبور کرنا بین الاقوامی اور یورپی یونین کے قوانین کی شدید خلاف ورزی ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کی ایجنسی اور انسانی حقوق کے ایک گروپ ہنگیریئن ہیلسنکی کمیٹی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انسانی حقوق کے حوالے سے یورپی عدالت نے ہنگری کو ایک اور افغان خاندان کو ملک بدر کرنے کے عمل سے روک دیا ہے۔
ہنگری نے سیاسی پناہ دینے کے لیے اپنے قوانین کو گزشتہ برس سخت کر دیا تھا۔ ان میں سے ایک تبدیلی یہ بھی تھی کہ ایسے افراد کو سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہونے پر عدالتی کارروائی کا کوئی حق نہیں دیا گیا جو ہنگری تک پہنچنے سے قبل ایسے ملکوں سے سفر کر چکے ہوں جہاں انہیں کوئی خطرہ نہیں تھا۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو بلقان کے راستے سربیا سے ہوتے ہوئے ہنگری پہنچے۔
بدھ کے روز ملک بدر کیے جانے والے ایک خاندان کے 16 سالہ بیٹے محمد عرب نے سربیا کے سرحدی شہر سبوٹیکا میں خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ہنگری کی پولیس نے پانچ ارکان پر مشتمل اس کے خاندان کو بتایا کہ انہیں یا تو افغانستان بھیجا جا سکتا ہے یا پھر سربیا جہاں وہ پہلے ہی دو برس گزار چکے تھے۔ عرب کے مطابق، ’’انہوں نے ہم سے ایسے سلوک کیا جیسے ہم انسان نہیں جانور ہوں۔ انہوں نے کسی انسانی حق کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ انہوں نے کسی چیز کی کوئی پرواہ نہیں کی۔‘‘
افغان خاندان کے اس ٹین ایجر رکن کا مزید کہنا تھا، ’’ہماری امید تھی کہ ہمیں اچھا مستقبل ملے گا اور ہمیں تعلیم کا موقع ملے گا۔۔۔ ہم لوگوں کے لیے کارآمد بن سکیں گے نہ کہ ناکارہ۔‘‘ محمد عرب کے مطابق، ’’اب میرا کوئی خواب باقی نہیں بچا۔‘‘
ا ب ا / ا ا (ایسوسی ایٹڈ پریس)