راحیل شریف کو زمین ملنے کی خبر میں سازش کی بُو؟
24 جنوری 2017واٹس اپ، ٹوئیٹر اور فیس بک پر بھی لوگ اس خبر پر تبصرے کر رہے ہیں۔ ملک میں اس بات پر بھی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کہ ایک ایسے وقت میں کہ جب وزیرِ اعظم نواز شریف اور ان کے گھرانے کو سپریم کورٹ کی طرف سے سخت سوالات کا سامنا ہے، اس خبرکے آنے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے۔ چونکہ یہ خبر ایک مخصوص میڈیا گروپ کی طرف سے آئی ہے، آرمی سے ہمدردی رکھنے والے تجزیہ کار اس خبرمیں سازش کے اشارے دیکھتے ہیں۔
جنرل راحیل کے ساتھ کام کرنے والے میجر جنرل اعجاز اعوان نے اپنے تاثرات دیتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’اس خبر میں چیزوں کو بڑھا چڑھا کے پیش کیا گیا ہے۔ یہ کوئی کمرشل زمین نہیں ہے بلکہ زرعی زمین ہے، جس کا کچھ حصہ سیم زدہ بھی ہے۔ اس کو صرف زرعی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ زمین قانونی تقاضوں کو پورا کر کے دی گئی ہے۔ یہ زمین 1973کے آئین کے آرٹیکل 268 کے تحت دی گئی ہے۔ جس جگہ راحیل شریف کو زمین دی گئی ہے، اسی علاقے میں گیارہ سپاہیوں، فوج کے نان کمیشنڈ آفیسرز اور جی او سیز کو بھی زمینیں دی گئی ہیں۔ فوج میں جنرلوں سے لے کر سپاہیوں تک کو زمین دی جاتی ہے۔ اس خبر کو اس طرح پھیلانا مناسب نہیں۔ اس سے فوج کا مورال ڈاؤن ہوتا ہے۔ میرے خیال میں اس کی تردید آنی چاہیے۔ میں کسی پر الزام نہیں لگاتا لیکن ملک میں ایک مخصوص مائنڈ سیٹ ہے، جو فوج کو بدنام کرنا چاہتا ہے۔ زمین کی قیمت ایسے لگائی گئی ہے جیسے کہ وہ ڈی ایچ اے میں واقع ہو۔ میرے خیال میں اس حوالے سے تردید آنی چاہیے۔‘‘
لیفٹیننٹ جنر ل ریٹائرڈ شعیب امجد نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ایک مخصوص میڈیا گروپ اس طرح کی خبریں پھیلا رہا ہے۔ پہلے بھی سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے عسکری اتحادکی تشکیل اور اس کی قیادت راحیل شریف کو سونپے جانے کے حوالے سے ایک میڈیا گروپ نے خبر پھیلائی۔ خواجہ آصف کا انٹرویو کیا گیا اور اب یہ یک طرفہ خبر بھی اسی میڈیا گروپ کی طرف سے آئی ہے۔ اُنہوں نے آئی ایس پی آر سے بھی بات کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی اور نہ ہی راحیل شریف سے رابطہ کر کے ان کا نقطہٴ نظر جاننے کی کوشش کی۔ ہم اس پروپیگنڈے کا میڈیا پر مقابلہ کریں گے۔ آج میں بھی اس پر پروگرام کروں گا اور ٹاک شوز میں بھی اس خبر کو چیلنج کیا جائے گا۔‘‘
اوکاڑہ میں کسانوں کی تحریک کی حمایت کرنے والے فاروق طارق نے اس حوالے سے اپنا نقطہٴ نظر ڈی ڈبلیو کو دیتے ہوئے کہا، ’’ہم یہ کہتے ہیں کہ جس کا کام اس کو ساجھے۔ سپاہیوں کا کام کھیتی باڑی کرنا نہیں ہے، ان کا کام ملک کی حفاظت کرنا ہے۔ اگر ان کو کوئی انعام یا اعزاز دینا ہے تو وہ نقدی کی شکل میں دیا جا سکتا ہے۔ ملک میں لاکھوں مزارعوں کے پاس کوئی زمین نہیں ہے۔ اگر حکومت ان بے زمین کسانوں کو زمین دے تو ملکی زراعت ترقی کر سکتی ہے اور ان لاچار انسانوں کی غربت میں بھی کمی ہو سکتی ہے۔ ہم زمین دینے کے اس عمل کے ہی مخالف ہیں، چاہے یہ زمین جنرلوں کو دی جائے، نوکر شاہی کے افسران کو، سیاست دانوں کو یا پھر تعمیرات سے وابستہ سرمایہ داروں کو۔ اگر زمین سپاہیوں کو دینی ہے توپھر کسانوں کو ٹینک اور لڑاکا جہاز دے دیے جائیں۔ اگر زمین کو اسی طرح بانٹا جاتا رہا تو پھر ایک ایسا وقت آئے گا کہ ملک غذائی قلت کا شکار ہو جائے گاکیونکہ زمین لی تو جاتی ہے زراعت کے نام پر لیکن بعد میں اِسے بیچ دیا جاتا ہے۔‘‘
کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پاکستان میں سیاست دانوں کی کرپشن کی بات تو کی جاتی ہے لیکن جنرلوں کا احتساب نہیں کیا جاتا۔
اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے وفاقی اردو یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکڑ توصیف احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان میں کرپشن ایوب خان کے دور میں شروع ہوئی، انہوں نے جنرل حبیب اللہ پر عنایات کیں۔ ایوب کے دوبیٹے کیپٹن کے طور پر ریٹائر ہوئے لیکن ذرا وہ اس بات کی وضاحت تو کریں کہ وہ آج پاکستان کے بائیس امیر ترین گھرانوں میں کیسے شامل ہو گئے ہیں۔ جنرل ضیاء اور دوسرے جنرلوں کے گھر والوں کے بھی اثاثہ جات کی جانچ پڑتال کی جائے اور ان سے پوچھا جائے کہ ان کے پاس یہ سارا مال کہاں سے آیا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سیاست دانوں کا احتساب نہیں ہونا چاہیے۔ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ سب کا احتساب کیا جائے ۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’جنرلوں کو زمینیں ملنا کوئی نئی بات نہیں۔ جنرل مشرف اور دوسرے جرنیلوں کو بھی زمینیں ملی ہیں لیکن میرے خیال میں اس خبر سے جنرل راحیل کی اخلاقی ساکھ متاثر ہو گی اور ان کے مخالفین اس خبر کو ان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘