ربیکا بروکس فون ہیکنگ اسکینڈل کا مرکزی کردار ہیں اور رہیں گی
18 جولائی 2011ربیکا بروکس 2000ء میں نیوز آف دی ورلڈ کی ایڈیٹر بنی تھیں۔ 2003ء میں انہیں ’دی سن‘ کا ایڈیٹر بنا دیا گیا۔ اس عہدے پر فائز ہونے والی وہ پہلی خاتون تھیں۔ وہ اسی طرح ترقی کی سیڑھیاں چڑھتی رہیں اور روپرٹ مرڈوک نے انہیں اپنی صحافتی سلطنت کے برطانوی حصے نیوز انٹرنیشنل کا چیف ایگزیکیٹو بنا دیا۔ روپرٹ مرڈوک ربیکا بروکس کےکام سے بہت متاثر تھے۔ وہ ان پر انتہائی بھروسہ کرتے تھے۔
43 سالہ ربیکا بروکس کے بقول برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون ان کے دوست ہیں۔ ایک سینئر تبصرہ نگار رائے گرینسلیڈ نے بتایا ’’میں نے بروکس کی طرح کا نیٹ ورک کبھی نہیں دیکھا۔ اُن کے ہر شعبے میں بہت اچھے تعلقات تھے‘‘۔ مسز بروکس پہلے ربیکا ویڈ کے نام سے مشہور تھیں۔ دو سال قبل انہوں نے مصنف اور سابق جوکی چارلی بروکس سے دوسری شادی کی، جس کے بعد وہ ربیکا بروکس کہلانے لگیں۔
ربیکا بروکس نے گرامر اسکول ختم کرنے کے بعد کچھ وقت پیرس میں گزارا۔ وہ 20 سال کی عمر میں نیوز کارپوریشن سے منسلک ہوئیں۔ 1998ء میں انہیں مشہور اخبار ’دی سن‘ کا ڈپٹی ایڈیٹر بنا دیا گیا۔ پھر دو سال بعد انہیں دوبارہ نیوز آف دی ورلڈ میں منتقل کر دیا گیا۔ اس دوران انہوں نے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کے حوالے سے ایک مہم شروع کی، جو کافی متنازعہ رہی۔ جب ایک لڑکی ملی ڈاؤلرکا فون ہیک کرنے کا معاملہ سامنے آیا، تو اُس وقت وہ اس اخبار کی مدیر اعلٰی تھیں۔ بعد ازاں ڈاؤلر کو قتل کر دیا گیا تھا۔ اس موقع پر بروکس نے کہا کہ انہیں اس بارے میں قطعاًعلم نہیں تھا۔ تاہم روپرٹ مرڈوک نے اس واقعے پر مقتول لڑکی کے والدین سے معافی مانگی تھی۔
2003ء میں ربیکا بروکس کو ڈیوڈ یلینڈ کی جگہ ’دی سن‘ کا ایڈیٹر بنا دیا گیا۔ انہوں نے برطانیہ کے سب سے زیادہ فروخت ہونے والے اس اخبار کی پالیسی میں تبدیلیاں کیں۔ خبروں کا مرکز اب شوبز کا شعبہ تھا۔ اخبار میں فلمی ستاروں کی کہانیاں شائع ہونے لگیں اور روزانہ اخبار کے صفحہ نمبر تین پر کسی نہ کسی نیم برہنہ لڑکی کی تصویر بھی دکھائی دیتی تھی۔ اطلاعات کے مطابق جب وہ ’دی سن‘ کی نائب مدیر تھیں تو وہ انہی چیزوں کی مخالفت کیا کرتی تھیں۔ دی سن کے ایک سابق رپورٹر نے بتایا ’’ربیکا اپنے نجی مسائل پر دفتر میں بات نہیں کرتی تھیں۔ میں نے انہیں کبھی یہ کہتے نہیں سنا کہ ان کی اپنے شوہر کے ساتھ کوئی ناچاقی چل رہی ہے‘‘۔
گزشتہ ہفتوں کے دوران فون ہیکنگ کا اسکینڈل منظر عام پر آتے ہی ربیکا بروکس کوشدید عوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ تاہم یہ دباؤ بڑھتا گیا اور آخر کار انہیں اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑ گیا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ بے شک وہ اس معاملے سے کنارہ کشی اختیار کر چکی ہیں اور اپنی ذمہ داریوں کو خیر باد کہہ چکی ہیں تاہم پھر بھی وہ اس اسکینڈل کا مرکزی کردار ہیں اور رہیں گی۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت : مقبول ملک