رشوت لینے والے قانون سازوں کو استشنٰی حاصل نہیں،بھارتی عدالت
4 مارچ 2024سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی قیادت والی سات رکنی آئینی بنچ نے تقریباً پچیس سال قبل دیے گئے پانچ رکنی آئینی بنچ کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا جس میں کسی حکومت کے حق میں ووٹ دینے کے بدلے میں رشوت لینے والے قانون سازوں کو رشوت قانون سے مستشنٰی رکھا گیا تھا۔
یہ فیصلہ اس وقت کے کانگریسی وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے سلسلے میں آیا تھا۔
بھارت رشوت خوری میں ایشیا میں اول نمبر پر
وزیر اعظم نریندر مودی نے سپریم کورٹ کے آج کے فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے اس کا خیرمقدم کیا۔ انہوں نے اسے ایک "بڑا فیصلہ" قرار دیا اور سوشل میڈیا پر اپنے پوسٹ میں لکھا،"سواگتم (خوش آمدید)۔ سپریم کورٹ کی جانب سے ایک بڑا فیصلہ، جو صاف ستھری سیاست کو یقینی بنائے گا اور نظام پر لوگوں کے اعتماد کو مستحکم کرے گا۔ "
سپریم کورٹ نے کیا کہا؟
سپریم کورٹ نے کہا کہ رشوت لینا اپنے آپ میں ایک جرم ہے اور مقننہ کے رکن کی بدعنوانی یا رشوت خوری عوامی زندگی میں ان کی قابلیت کو ختم کرتی ہے۔
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ رشوت خوری کو پارلیمانی استحقاق سے تحفظ حاصل نہیں ہے اور 1998 کا سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین کے ان دفعات کے منافی ہے جو قانون سازوں کو کسی خوف کے بغیر کام کرنے کے لیے آئینی تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
بھارت: ایک تہائی سے زائد قانون سازوں پر جرائم کے مقدمات
آئینی بنچ نے اپنے تاریخی فیصلے میں کہا،"ہم سمجھتے ہیں کہ رشوت کو پارلیمانی مراعات سے تحفظ حاصل نہیں ہے۔ قانون سازوں کی بدعنوانی اور رشوت خوری بھارتی پارلیمانی جمہوریت کے کام کاج کو تباہ کردیتی ہے۔"
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا،"ہم پی وی نرسمہا راو (کیس) میں فیصلے سے متفق نہیں ہیں۔ پی وی نرسمہا راو کے فیصلے میں، جو قانون ساز کو ووٹ دینے یا تقریر کرنے کے لیے مبینہ طورپر رشوت لینے کے لیے استشنٰی دیتا ہے، کے وسیع مضمرات ہیں لہذا اسے کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔"
نرسمہا راو کیس کیا تھا؟
پی وی نرسمہا راو کیس جولائی 1993 میں ان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے سلسلے میں آیا تھا۔ ان کی حکومت بہت کم ووٹوں کے فرق سے بچ گئی تھی۔ ان کے حق میں 265 اور مخالفت میں 251 ووٹ پڑے تھے۔
ایک سال بعد یہ انکشاف ہوا تھا کہ جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے چار قانون سازوں نے نرسمہا راو حکومت کی حمایت میں ووٹ دینے کے لیے رشوت لی تھی۔ ان میں پارٹی کے صدر اور جھارکھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ شیبو سورین بھی شامل تھے۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا جہاں عدالت نے کہا کہ قانون سازوں کو اس معاملے میں استشنٰی حاصل ہے۔ حالانکہ اس وقت سپریم کورٹ کی تین رکنی بنچ نے اس پر بڑی بنچ میں غور کرنے کی بھی بات کہی۔
بھارت میں مودی کابینہ کے بائیس وزراء کے خلاف مجرمانہ مقدمات
سن 1998 میں پانچ ججوں کی بڑی بنچ نے بھی اس کیس پر اپنے اکثریتی فیصلے میں کہا تھا کہ ارکان پارلیمان کو آئین کی متعدد دفعات کے تحت ایوان کے اندر کسی بھی تقریر یا ووٹ ڈالنے پر فوجداری مقدمہ چلانے کے خلاف استشنٰی حاصل ہے۔
دور رس مضمرات کا حامل فیصلہ
پی وی نرسمہا راو کیس میں فیصلہ سن 2019 میں ایک بار پھر سپریم کورٹ کے سامنے آیا، جب اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی والی بنچ جھارکھنڈ مکتی مورچہ کی رکن اسمبلی اور پارٹی سربراہ شیبو سورین کی بہو سیتا سورین کے خلاف رشوت لینے کے ایک کیس کی سماعت کررہی تھی۔
جسٹس گوگوئی نے بھی پی وی نرسمہا راو کیس میں عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے سیتا سورین کو بری کردیا لیکن اس معاملے کی "انتہائی عوامی اہمیت" اور "وسیع تر اثرات" کے حامل ہونے کے مدنظر اس پر بڑی بنچ میں غور کرنے کی سفارش کی۔
قانون توڑنے سے قانون بنانے تک، بھارتی انتخابات کے امیدوار
موجودہ چیف جسٹس چندر چوڑ نے ستمبر 2023 میں اپنی قیادت میں سات ججوں کی ایک آئینی بنچ تشکیل دی تاکہ اس معاملے پر غور کیا جاسکے۔
اسی سات رکنی بنچ نے آج اپنا فیصلہ سنایا، جسے بھارت کی سیاست میں دور رس اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں حکمراں جماعت پر اراکین پارلیمان اور اراکین اسمبلی کو رشوت دے کر اپنے حق میں ووٹ دینے کے الزامات اکثر لگاتی رہتی ہیں۔