رنگ بکھیرتی تتلیاں اور ٹمٹماتے جگنو ناپید ہوتے ہوئے
22 اگست 2015زاہد حسن کواپنے گاؤں کی وہ صبحیں یاد ہیں، جب خود رو پودوں اور گھاس میں اڑتی تتلیوں کو پکڑنے سے زیادہ ان کے پیچھے بھاگنا لطف دیتا تھا۔ انہیں وہ سرد سیاہ راتیں بھی نہیں بھولیں جب ڈیرے سے گھر دودھ لے کر جاتے سینکڑوں ہزاروں ٹمٹماتے جگنو راستہ سجھانے کا واحد ذریعہ ہوا کرتے تھے۔
تاندلیاں والا میں واقع گوگیرہ نہر سے سیراب ہوتے اس گاؤں کے رہنے والے لکھاری نے روزگار کے لیے چار ساڑھے چار گھنٹے کی مسافت پر لاہور ہجرت تو کر لی مگر دل وہیں اٹکا رہا اوریوں ان کی تحریروں میں ،جن میں ’عشق لتاڑے آدمی‘ اور ’غلیچہ انن والی‘ ایسے ناول بھی شامل ہیں، گاؤں کے ایسے مناظر خُوب ملتے ہیں۔
نظموں میں، کہانیوں میں جگنو علامت تھے، راستہ دکھانے کی۔ تتلیاں بھی رومان پرور تھیں۔ میرے خوابوں، میری تحریروں میں یہ تخصیص سے پائے جاتے ہیں، ایسا کہنا ہے ان کا۔
چھیالیس برس کے زاہد حسن کے مطابق یہ مناظر اب کم ہوتے جا رہے ہیں اور ان کی نسل خوش قسمت ہے کہ یہ چیزیں دیکھ لیں، بہتات میں۔ خدشہ یہ ہے کہ اگر اسی رفتار سے یہ معدوم ہوتے گئے اور تدارک نہ کیا گیا تو شاید آنے والے بچّے انہیں دیکھ بھی نہ سکیں اور ان کے لیے جگنوؤں، تتلیوں کا ذکر کتابوں ہی میں رہ جائے۔
کالم نگارعرفان حسین کے مطابق وہ اپنے بچپن، لڑکپن اورجوانی میں ایسے مناظر دیکھتے رہے ہیں۔ کہتے ہیں:’’یہ چمکتے کیڑے میری یادوں کا حصہ ہیں۔ لاہور میں پلتے بڑھتے شہر کے پارکوں میں ہزاروں جگنو دکھائی دیتے تھے۔ مگر افسوس اب نہیں۔ لوگ کہتے ہیں، جگنو آلودگی کا بیرومیٹر ہیں اور افسوس یہ کہ ٹریفک نے انہیں ختم کر دیا ہے۔‘‘
مگر زاہد حسن کے خیال میں مسئلہ صرف ان جانداروں سے جڑے رومان کا نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فطرت نے یہ چیزیں بے سبب پیدا نہیں کیں۔ کہیں نہ کہیں یہ فطرت کے دیگر مظاہر کو فائدہ پہنچا رہی ہوتی ہیں۔ فطرت کے عناصر میں ایک توازن پیدا کر رہی ہوتی ہیں۔ ایک جاندار دوسرے کی جان کا ضامن بھی ہوتا ہے اور ان میں کمی عدم توازن پیدا کرے گی۔
زرعی یونورسٹی فیصل آباد کے شعبہٴ زرعی حشریات کے لیے کی گئی وسیم اکرم ، محمد ساجد تبسم اور خرم ضیا کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں آبادی کا 70 فیصد سے زائد زراعت سے منسلک ہے۔ یہاں کاشت کے علاقوں میں پچھلے چند سالوں میں کیڑے مار دواؤں کے استعمال میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ ضرر رساں کیڑوں میں تو ان دواؤں کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہوگئی ہے جبکہ ایسے کیڑے تلف ہو رہے ہیں، جو ان کیڑوں کے قدرتی دشمن ہیں یا پھر جو جمالیاتی اہمیت کے حامل ہیں، جیسے کہ جگنو۔
تحقیق میں کہا گیا ہے کہ جگنو رات کے وقت اپنی روشنی کے لیے جانے جاتے ہیں اور صاف ماحول کا اشارہ دیتے ہیں۔
یہ تحقیق ایسے زرعی ماحولیاتی نظام پر کی گئی ہے، جہاں کیڑے مار دواؤں کے سپرے سے پانی کے ذرائع آلودہ ہوگئے ہیں۔ آبادی کے تخمینے کے مطابق سپرے کیے گئے علاقوں میں سپرے نہ کیے گئےعلاقوں کے مقا بلے میں جگنوؤں اور تتلیوں اور حیاتیاتی تنوع کی کمی تھی۔ نیم پہاڑی علاقوں کے مطالعے سے یہ علم ہوا کہ نہروں اور کھالوں کے قریب، جہاں لاروا مچھر کی بہتات ہوتی ہے، جگنو زیادہ تعداد میں پائے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر فرخندہ منظور محقق ہیں، لاہور کے ایک تعلیمی ادارے لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی میں شعبہٴ حیاتیات کی سربراہ ہیں اور ماحولیاتی سائنس ان کا خاص موضوع ہے۔ تتلیوں کی تعداد میں کمی پر ایک تحقیق کر چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے، تیس چالیس سال پہلے کی نسبت اب تتلیوں ایسے جانداروں کی تعداد بہت کم ہو گئی ہے۔
الزام موسمیاتی تبدیلی، شہری آبادیوں اورصنعتی آلودگی میں اضافے کو دیتی ہیں۔ساتھ ہی ساتھ ان کے مطابق ایسا اس لیے بھی ہو رہا ہے کہ مقامی پودے، جن پر تتلیاں پرورش پاتی تھیں، اب کاشت نہیں ہو رہے۔ نمائشی پودوں نے ان کی جگہ لے لی ہے۔ زرعی ادویات کے باعث بھی ان کی پرورش نہیں ہو پاتی۔
ماہرحیاتیات امجد اقبال کے مطابق ان حشرات کی نسل بڑھانے میں حارج مصنوعی روشنیاں بھی ہیں۔
مواصلاتی سگنلز اور مصنوعی روشنیاں جگنوؤں کو دور رکھنے اور کم کرنے کی وجہ بنی ہیں کیونکہ اپنی مادہ کے لیے محبت سے لے کر اپنے ہم نسلوں کے لیے خطرے تک کے سگنلز، جو جگنو بھیجتے تھے، اب نہیں بھیج پاتے۔ مادہ جگنو زمین پر رہتی ہے اورکینچوے کھاتی ہے، نر جگنو اڑتے اور چمکتے ہیں۔ کیڑے مار دواؤں سے یہ کینچوے مر جاتے ہیں، اس لیے جگنو خوراک کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹرفرخندہ اس کا حل یہ تجویز کرتی ہیں کہ مقامی پودے مثلاً شیشم، کیکر کاشت کیے جائیں۔ زرعی اور کیڑے مار دواؤں کی بجائے حیاتیاتی ایجنٹس کا استعمال کیا جائے۔
صدارتی ایوارڈ یافتہ شاعر عمران نقوی، جنہیں ان کے مطابق جگنو اور تتلی ایسے بچپن کے متعلقات چِھن جانے کا افسوس ہے، کہتے ہیں فطرت کی ان علامات کے ناپید ہونے سے پہلے ان کی تعداد میں کمی کو دور کرنے کا فوری حل ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ فطرت ہی سے زندگی ہے، فطرت سے دوری موت۔ موت کو جتنی دیرٹال سکیں، بہتر ہے۔