رواں برس بیس لاکھ مسلمان مناسک حج ادا کریں گے
28 اگست 2017رواں برس کے حج میں ایران کے شیعہ مسلمان بھی شریک ہیں۔ اس کو خطے کی سیاسی عدم استحکام کی صورت حال میں ایک مثبت پیش رفت قرار دیا گیا ہے۔ گزشتہ برس ایران نے حج کی ادائیگی کے لیے اپنے شہریوں کو منع کر دیا تھا۔
قطری حاجیوں کی سلامتی کے معاملے پر تشویش ہے، دوحہ
فریضہ حج کے حوالے سے سعودی عرب اور ایران کے درمیان مذاکرات
سعودی عرب کی قطر پر یہ مہربانی کیوں؟
تہران حکومت نے سن 2016 میں اپنے زائرین کو نہ بھیجنے کا فیصلہ سن 2015 میں رونما ہونے والی بھگدڑ اور اُس میں ہونے والی 23 سو افراد کی ہلاکت کے تناظر میں کیا تھا۔ ایرانی حکومت نے سعودی سکیورٹی انتظامات پر بھی کڑی تنقید کی تھی۔ ان ہلاکتوں میں کئی سو ایرانی حجاج بھی شامل تھے۔ جنوری سن 2016 سے ایران اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات بھی منقطع ہیں۔
اس کے علاوہ مشرق وسطیٰ میں یمن، عراق اور شام کی دگرگوں اندرونی حالات کے بھی حج پر اثرات مرتب ہونے کو اہم خیال کیے گئے ہیں۔ عرب دنیا میں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ بھی ایک خطرہ بنی ہوئی ہے اور حج کے دوران سکیورٹی انتظامات بھی خاص طور پر غیرمعمولی رکھے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ سعودی عرب نے سفارتی تنازعے کے شریک خلیجی عرب ریاست قطر کے مسلمانوں کو بھی حج کی ادائیگی کی خصوصی اجازت دے رکھی ہے۔ کئی مسلمان دانشور حج پر بین الاقوامی سیاسی اثرات کو نامناسب خیال کرتے ہیں اور اسے مذہبی عبادت کی روح کے منافی بھی سمجھتے ہیں۔
حج مسلمانوں کی واجب عبادت میں شمار کیا جاتا ہے لیکن یہ بھی ضروری قرار دیا گیا ہے کہ ادا کرنے والا مسلمان اپنی ضروریات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس کی ادائیگی کرے۔ قرض یا مالی مشکلات پیدا کر کے حج کرنے کی ممانعت کی گئی ہے۔ کئی مسلمانوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ زندگی میں ایک مرتبہ مکہ کا سفر ضرور اختیار کر سکیں۔