1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روسی اور چینی صدور نے امریکی 'مداخلت' کی مذمت کی

9 فروری 2024

کریملن کا کہنا ہے کہ روس اور چین کے خلاف امریکہ کی قیادت میں کی جانے والی کوششوں کا مقابلہ کرنے کے لیے صدر ولادیمیر پوٹن اور شی جن پنگ نے ایک 'کثیر قطبی اور مبنی برانصاف رلڈ آرڈر' بنانے کے بارے میں بات کی ہے۔

https://p.dw.com/p/4cCcn
روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور ان کے چینی ہم منصب شی جن پنگ نے جمعرات کو فون پرایک گھنٹے تک بات کی
روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور ان کے چینی ہم منصب شی جن پنگ نے جمعرات کو فون پرایک گھنٹے تک بات کیتصویر: SERGEI KARPUKHIN/AFP

کریملن نے کہا کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور ان کے چینی ہم منصب شی جن پنگ نے دیگر ملکوں کے معاملات میں ان کے بقول امریکی مداخلت کو مسترد کر دیا۔

کریملن کے معاون یوری اوشاکوف نے صحافیوں کو بتایا کہ جمعرات کو فون پرایک گھنٹے تک جاری رہنے والی بات چیت کے دوران شی اور پوٹن نے "دوسرے ملکوں کے داخلی معاملات میں مداخلت کی امریکی پالیسی" کی مذمت کی۔

انہوں نے کہا کہ دونوں رہنماوں نے واشنگٹن کی جانب سے ان دونوں ملکوں پر قابو پانے کے لیے امریکی قیادت میں کی جانے والی کوششوں کے تناظر میں "ایک کثیر قطبی اور مبنی بر انصاف ورلڈ آرڈر" بنانے کے حوالے سے بات چیت کی۔

چینی اور روسی صدور میں کیا باتیں ہوئیں؟

انہوں نے مزید کہا کہ "دونوں ملکوں کے رہنماوں کو احسا س ہے کہ امریکہ عملی طورپر روس اور چین دونوں کو قابو میں کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔"

مغرب کا خیال ہے کہ ماسکو اور بیجنگ دونوں ہی اپنے عالمی اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں
مغرب کا خیال ہے کہ ماسکو اور بیجنگ دونوں ہی اپنے عالمی اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیںتصویر: Suo Takekuma/REUTERS

روس اور چین کی عالمی اثرو رسوخ بڑھانے کی کوششیں

مغربی ملکوں کا خیال ہے کہ ماسکو اور بیجنگ دونوں ہی اپنے عالمی اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گزشتہ دو سالوں کے دوران مغرب کی بے چینی میں اس لیے بھی اضافہ ہوا ہے کہ دونوں ممالک تجارت اور دفاع کے شعبوں میں اپنے تعلقات کو وسعت دے رہے ہیں۔

یوکرین پر روس کے فوجی حملے پر مغرب کی جانب سے اس پر غیر معمولی پابندیاں عائد کر دیے جانے کے بعد ماسکو نے بیجنگ کو ایک اہم اقتصادی لائف لائن کے طور پر دیکھا ہے۔

مغربی پابندیوں کے بعد چین اور بھارت روسی تیل کے بڑے خریدار

دریں اثنا چین سستی روسی توانائی کی درآمدات اور وسیع تر قدرتی وسائل تک رسائی سے فائدہ اٹھا رہا ہے، جن میں سائبیریا پائپ لائن کے ذریعہ گیس کی مستقل ترسیل شامل ہے۔

بیجنگ کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان گزشتہ دو سالوں میں تجارت میں اضافہ ہوا ہے، جو جنوری سے نومبر کے دوران 218.2 بلین ڈالر تک پہنچ گیا اور دونوں ملکوں نے سن 2019 میں طے شدہ ہدف کو مقررہ وقت سے ایک سال پہلے ہی حاصل کرلیا۔

ماسکو اور بیجنگ امریکی ڈالر میں تجارت کو مرحلہ وار ختم کرنا چاہتے ہیں اور وہ بڑی تیزی سے روبل اور یوان میں تجارت کر رہے ہیں۔

کیا بنگلہ دیش چین اور روس سے قریب تر ہو رہا ہے؟

یوشاکوف نے کہا کہ صدر پوٹن اور صدر شی جن پنگ نے بات چیت کے دوران "ایک ایسے مالی ڈھانچے کی تعمیر کی ضرورت پر زور دیا جو ادائیگیوں کے قابل اعتماد کو یقینی بنائے۔"

چینی سیاح آبنائے تائیوان میں ایک جہاز کو گزرتے ہوئے دکھتے ہوئے
چینی سیاح آبنائے تائیوان میں ایک جہاز کو گزرتے ہوئے دکھتے ہوئےتصویر: GREG BAKER/AFP

دیگر عالمی امور پر بھی بات چیت

اوشاکوف نے بتایا کہ پوٹن اور شی جن پنگ نے یوکرین کی صورت حال اور مشرق وسطیٰ میں تنازعات کے حل پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے تاہم یہ نہیں بتایا کہ اس حوالے سے کیا باتیں ہوئیں۔

بیجنگ اور ماسکو نے فروری 2022 میں یوکرین پر روس کے حملے سے چند رو ز قبل "لامحدود" شراکت داری کا اعلان کیا تھا اور بیشتر مغربی ملکوں کی جانب سے منہ موڑلینے کے باوجود چین نے روس کے ساتھ تعلقات کو وسعت دی ہے۔

چین کی سرکاری میڈیا سی سی ٹی وی کے ایک بیان کے مطابق صدر شی جن پنگ نے پوٹن سے کہا کہ " دونوں ملکوں کو اسٹریٹیجک طور پر قریبی تعاون کرنا چاہئے اور اپنے اپنے ممالک کی خودمختاری، سلامتی اور اسٹریٹیجک مفادات کا دفاع کرنا چاہئے۔"

روس کے ساتھ تعلقات 'چٹان کی طرح مضبوط' ہیں، چین

سی سی ٹی وی نے کہا کہ چینی صدر نے اس بات پر بھی زور دیا کہ دونوں فریق کو "بیرونی طاقتوں کی اندرونی معاملات میں مداخلت کی بھرپور مخالفت کرنی چاہئے۔"

دوسری طرف کریملن نے بتایا کہ ایشیا بحرالکاہل خطے کی صورت حال پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے روسی صدر نے تائیوان کے معاملے پر اپنے اصولی موقف کی توثیق کی اور کہا کہ ماسکو" ایک چین کی پالیسی کی حمایت کرتا ہے۔ "

ج ا/  ص ز (اے ایف پی، روئٹرز)